خلاصہ: دین اسلام میں ماں باپ کا احترام کرنا اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرنا نہایت ضروری سمجھا گیا ہے۔ ورنہ جیسا کرے گا ویسا پائے گا۔
ایک دولتمند سوداگر کی بیوی مرگئی تھی، تھوڑے عرصے کے بعد وہ خود بھی دمے کے مرض میں مبتلا ہوگیا تو اس نے اپنی کل جائداد اپنے نوجوان بیٹے کے نام کردی۔
لاکھوں کی جائداد پاکر پہلے پہلے تو نوجوان لڑکا اور اسکی بیوی بچے سب سوداگر کی خوب اچھی طرح خاطر داری کرتے رہے؛ مگر برس چھ مہینے میں جوش ٹھنڈا ہوکر حالت یہ ہوگئی کہ علاج معالجہ بھی چھوٹ گیا اور کھانا بھی وہی ملنے لگا جو معمولی انداز کا گھر میں پکتا تھا؛ بلکہ ایک دن تو نوجوان بیٹے نے صاف کہہ دیا کہ بابا! آپ اپنی چارپائی ڈیوڑھی میں بچھالیں تو بہتر ہو کہ ہر وقت کھانستے رہنے سے بچوں میں بیماری پھیلنے کا اندیشہ ہے۔
بیمار باپ کو صبر و شکر کے سوا چارہ ہی کیا تھا، اس نے کہا مجھے تو عذر نہیں مگر ایک کمبل اوڑھنے کو چاہئے کہ ابھی سردی باقی ہے، نوجوان نے چھوٹے بیٹے سے کہا: دادا کے لئے گائے کو اوڑھانے والا کمبل اٹھالاؤ، لڑکا جھٹ سے کمبل اٹھالایا، اور دادا سے بولا: لیجئے دادا، اس میں سے آدھا آپ پھاڑلو اور آدھا مجھے دیدو، دادا بولا: بھلا آدھے کمبل سے سردی کیا جائے گی؟ باپ نے بھی بیٹے سے کہا کہ دادا کو سارا ہی کمبل دیدو۔ جس پر چھوٹے لڑکے نے باپ کو مخاطب کرکے جواب دیا: گھر میں ایسا کمبل تو ایک ہی ہے، اگر سارا دادا کو دیدیا تو جب آپ بوڑھے اور بیمار ہوکر ڈیوڑھی میں چار پائی بچھاؤ گے تو میں آپ کو کیا دوں گا!۔
نوجوان باپ لڑکے کی یہ بھولی بات سن کر سن ہوگیا اور باپ سے معافی مانگ کر پوری اطاعت اور خدمت کرنے لگا جس سے باپ بھی خوش ہوگیا اور اسکی اپنی عاقبت بھی سنور گئی۔
پیارے نوجوانو! ہمارے نبی ہمیں نصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: أَطِعْ أَبَاكَ مَا دَامَ حَيّاً وَ لَا تَعْصِه(بحار الانوار ج۳۳، ص۱۲)اپنے باپ کی فرماں برداری کرو جب تک وہ با حیات ہیں اور (کسی حال میں)ان کی نافرمانی نہ کرو۔
منبع و ماخذ
مجلسى، محمد باقر بن محمد تقى، ناشر: دار إحياء التراث العربي، بيروت، 1403 ق، چاپ دوم۔
Add new comment