بسم اللہ الرحمن الرحیم
ہم میں سے بہت سے لوگ بعض دعاؤں اور اذکار کو ایک خشک عادت کے طور پر پڑھتے رہتے ہیں اور ان کے معنی و مفہوم کی طرف ذرا برابر بھی روجہ نہیں رہتی، اسی وجہ سے ان دعاؤں کے ذریعہ ہمارے اندر کسی بھی قسم کی کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہوتی، ممکن ہے کہ ہم ابتداء میں توجہ کے ساتھ کسی کام کو شروع کریں اور کسی ذکر کو زبان پرجاری کریں مثال کے طور پر ہم سنتے ہیں کہ ایک روایت میں نقل ہوا ہے کہ تسبیحات فاطمہ زہر(سلام اللہ علیہا) یا فلاں ذکر کا بہت زیادہ ثواب ہے اس لئے اس کو توجہ کے ساتھ پڑھتے ہیں لیکن آہستہ آہستہ ہماری توجہ کم ہوتی جاتی ہے یہاں تک ان کلمات کو بطور عادت کسی قسم کی توجہ کے بغیر زبان پر جاری کرتے ہیں، البتہ ''اللہ اکبر'' ''لا الہ الا اللہ'' جیسے اذکار کو توجہ کے بغیر بھی کہنا بیکار نہیں ہے لیکن بغیر توجہ کے ساتھ ان کا کہنا انسان کے اندر مطلوب روحانی اثر پیدا نہیں کرتا۔
وہ ذکر انسان کی روح و نفس پر اثر کرتا ہے جو ذکر نماز پڑھنے والے کے لئے اطمینان قلب کا باعث ہو وہ ذکر انسان کی روحی و معنوی بلندی کا سبب اور دنیوی و مادی افکار کو چھوڑنے کا باعث اور آخرت اور خدا کی نعمتوں کے وسیع ہونے کا ذریعہ ہوتا ہے جو انسان کا خدا کے ساتھ رابطہ اور مضبوط کرے جو اس کے معنی و مفہوم کو ملحوظ رکھ کر خدائے متعال کو حاضر و ناظر سمجھ کر زبان پر جاری ہوتا ہے، یہ وہی ذکر ہے جس کی توصیف میں خدائے متعال فرمارہا ہے:«اِنَّمَا الْمُومِنُونَ الَّذِینَ اِذَاذُکِرِ اﷲُ وَجِلَتْ قُلُوبُھُمْ[سورۂ انفال، آیت:٢] صاحبان ایمان درحقیقت وہ لوگ ہیں جن کے سامنے ذکر خدا کیا جائے تو ان کے دلوں میں خورِ خدا پیدا ہو»، بیشک مؤمنین وہ ہیں کہ جب خدا کا ذکر ہوتا ہے تو ان کے دل لرزنے لگتے ہیں۔
کونسے ذکر کے ذریعہ ہم بلند درجوں تک پہونچ سکتے ہیں
Wed, 01/24/2018 - 12:55
Add new comment