خلاصہ: دنیا کی محبت انسان کو گناہوں کی جانب راغب کرتی ہے اور گناہ انسان کی پریشانیوں کا سبب بنتا ہے، اس کا سب سے بہترین علاج خداوند متعال کو ہر لمحہ یاد کرنا ہے چاہے جو کام کریں کیونکہ خدا کو یاد کرنے سے دل کو اطمینان حاصل ہوتا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تمام مشکلات جو نفس امارہ اور شیطان کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں وہ خدا کو بھلانے اور اس کے عذاب سے غفلت کی وجہ سے ہیں کیونکہ خدا سے غفلت اور بے توجہی دل کو تاریک بنا دیتی ہے جس کے نتیجہ میں نفسانی خواہشات کا انسان پر غلبہ ہو جاتا ہے اس کے مقابلہ میں خدا کی یاد اور اس کا ذکر دل کو پاکیزگی بخشتا ہے روح کو باطہارت بناتا ہے اور رزائل سے دور ہونے کا ذریعہ ہے انسان کو نفس کی قید سے آزاد کرتاہے اس صورت میں انسان کا دل پروردگار کی جلوہ گاہ بن جاتا ہے اور دنیا کی محبت جو تمام گناہوں کا سرچشمہ ہے دل سے ختم ہو جاتی ہے، اس مقالہ میں اسی احادیث کی روشنی میں اسی بات کو بیان کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اللہ کو یاد کرنے کا کیا فائدہ ہے تاکہ ہم خداوند متعال کی کو اپنی زندگی کے کسی بھی لمحہ میں فرموش نہ کریں۔
رسول خدا(صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) اللہ کے ذکر کی اہمیت کو مدّنظر رکھتے ہوئے فرمارہےہیں: «وَ اعْلَمُو اَنَّ خَیْرَ اَعْمَالِکُمْ عِندَ مَلِیکِکُمْ وَاَزکَاھَا وَ اَرْفَعَھَا فِی دَرَجَاتِکُمْ وَ خَیْرَمَا طَلَعَتْ عَلَیْہِ الشَّمْسُ ذِکْرُ اﷲِ سُبحٰانَہ وَ تَعٰالیٰ فَاِنَّہ اَخْبَرَ عَنْ نَفْسِہِ فَقَالَ: اَنَا جَلیسُ مَنْ ذَکَرَ نِی؛ جان لوکہ تمھارے مالک کے نزدیک تمہارے بہترین اعمال اور ان میں جو سب سے زیادہ پاکیزہ اور بلندترین درجہ والے اعمال ہیں اور بہترین چیز جس پر سورج کی روشنی پڑتی ہے ان سب سے بہتر اللہ کا ذکر ہے کیونکہ خدائے متعال اپنے بارے میں خبر رکھتا ہے اور فرماتا ہے: میں اس کا ہمنشیں ہوں جو مجھے یاد کرتا ہے»[۱]،
اس حدیث کی روشنی میں ہمارے لئے واضح ہے کہ ہمارے جتنے بھی بہترین اعمال ہوں جس کا ہم تصور کرسکتے ہیں ان سب سے بہتر اللہ کے نزدیک اس کا ذکر ہے کیونکہ وہ خود فرمارہا ہے کہ میں اس شخص کا ہمنشین ہوں جو میرا ذکر کرتا ہے۔
دوسرے روایت میں امام جعفر صادق(علیہ السلام) فرماتے ہیں: «إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى قَالَ مَنْ شُغِلَ بِذِكْرِي عَنْ مَسْأَلَتِي أَعْطَيْتُهُ أَفْضَلَ مَا أُعْطِي مَنْ سَأَلَنِي؛ خداوند متعال فرماتا ہے: جو میری یاد اور میرے ذکر میں مصروف رہنے کی وجہ سے مجھ سے سوال نہ کر سکے میں اسے اس سے بہتر عطا کروں گا جس کو میں سوال کے ذریعہ عطاکرتا ہوں»[۲]۔
خداوند متعال حضرت عیسیٰ(علیہ السلام) سے اس کے ذکر کی اہمیت کے بارے میں فرمارہا ہے: اے عیسیٰ! تم مجھے یاد کرو تاکہ میں تمھیں یاد کروں اورتم مجھے لوگوں کے درمیان یاد کرو تاکہ میں بھی تمھیں انسانوں سے بہتر جماعت(فرشتوں) کے درمیان یاد کروں، اے عیسیٰ: اپنے دل کو میرے لئے نرم کرو اور تنہائیوں میں مجھے زیادہ یاد کرو اور جان لو کہ میری خوشی اس میں ہے کہ میرے لئے تواضع کرو اس کام کیلئے اپنے دل کو زندہ رکھو اور مردہ (افسردہ) نہ رہو۔
خدا کی یاد کے بارے میں قرآن مجید کی تاکید اور توجہ اس حد تک ہے کہ اس نے نماز کے مقصد کو خدا کی یاد کے عنوان سے بیان کیا گیا ہے: «وَاَقِمْ الصَّلوٰةَ لِذِکرِی[سورۂ طہ، آیت:١٤] اور میری یاد کے لئے نماز قائم کرو»۔
قرآن مجید اور روایتوں میں خدا کی یاد کو فراوان اہمیت دی گئی ہے، یہاں تک بعض موضوع جیسے ذکر الہٰی کی تشویق، ذکر کے دنیوی و اخروی فائدے، ذکرکی کمیت و کیفیت، ذکر کے لئے زمان و مکان جیسے عناوین سے روایات میں تفصیل سے بحث کی گئی ہے جیسا کہ امام جعفرصادق(علیہ السلام) جس مجلس میں اللہ کا ذکر نہ ہو اس کے بارے میں فرمارہے ہیں: «مَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِي مَجْلِسٍ لَمْ يَذْكُرُوا اللَّهَ وَ لَمْ يَذْكُرُونَا إِلَّا كَانَ ذَلِكَ الْمَجْلِسُ حَسْرَةً عَلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَة؛ جس مجلس میں چند لوگ جمع ہوجائیں اور اس میں اللہ کا ذکر نہ ہو اور ہمارا ذکر نہ ہو وہ مجلس قیامت کے دن ان کے لئے حسرت و اندوہ کا باعث ہوگی»[۴]۔
انسان کو ہمیشہ دل و زبان پر ذکر خدا کو جاری رکھنا چاہئے اور اس ذکر کے لئے زمان و مکان یا کوئی خاص مجلس مخصوص نہیں ہے۔
نتیجہ:
یاد اور ذکر الہٰی کے لئے یہ سب نصیحت اور تاکید انسان کو رذائل اور اخلاقی کوتاہیوں سے بچانے اور اسے سعادت و خوشبختی کی منزل تک پہنچانے کے پیش نظر کی گئی ہے، کیونکہ اگر انسان ہمیشہ خدا کی یاد میں ڈوبا ہوا ہو اور ہمہ وقت خود کو خدا کے حضور میں تصور کرے تو ایسے امور سے پرہیز کرے گا جو خدا کو پسند نہیں ہیں اور اپنے نفس کو سرکشی سے روکے گا، خدا ہم سب کو ہر حال میں خدا کا ذکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے:
[۱] محمد باقرمجلسى، بحار الأنوار، ج۹۰، ص۱۶۳، دار إحياء التراث العربي ،بيروت، دوسری چاپ، ۱۴۰۳ق.
[۲] گذشتہ حوالہ، ص۱۵۸۔
[۳] «قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ لِعِيسَى ع يَا عِيسَى اذْكُرْنِي فِي نَفْسِكَ أَذْكُرْكَ فِي نَفْسِي وَ اذْكُرْنِي فِي مَلَئِكَ أَذْكُرْكَ فِي مَلَإٍ خَيْرٍ مِنْ مَلَإِ الْآدَمِيِّينَ يَا عِيسَى أَلِنْ لِي قَلْبَكَ وَ أَكْثِرْ ذِكْرِي فِي الْخَلَوَاتِ وَ اعْلَمْ أَنَّ سُرُورِي أَنْ تُبَصْبِصَإِلَيَّ وَ كُنْ فِي ذَلِكَ حَيّاً وَ لَا تَكُنْ مَيِّتاً». محمد بن يعقوب كلينى، كافی، ج۲، ص۵۰۲، تهران، دار الكتب الإسلامية، ۱۴۰۷ق۔
[۴] بحار الانوار، ج۷۲، ص۴۶۸۔
Add new comment