امام حسین (علیہ السلام) کا مدینہ سے روانگی کے وقت محمد بن حنفیہ کو اپنا وصیت نامہ سپرد کرنا
بسم الله الرحمن الرحيم.
هذا ما أوصى به الحسين بن على الى أخيه محمد بن الحنفيه:
«انّ الحسين يشهد أن لااله الاّ اللّه وحده لا شريك له و أنّ محمّداً عبده و رسوله جاء بالحقّ من عنده و أنّ الجنّة حق و النار حقّ و الساعة آتيةٌ لاريب فيها و أنّ اللّه يبعث من فى القبور و أنّى لم أخرج أشراً و لا بطراً و لا مفسداً و لا ظالماً و انّما خرجتُ لطلب الاصلاح فى أمّة جدى أريد أن آمر بالمعروف و أنهى عن المنكر و أسير بسيرة جدّى و أبى على بن أبى طالب.
فمن قبلنى بقبول الحقّ فالله أولى بالحقّ و من ردّ على هذا أصبر حتّى يقضى الله بينى و بين القوم و هو خير الحاكمين.
و هذه وصيّتى اليك يا أخى وما توفيقى الاّ باللّه عليه توكّلت و اليه أُنيب» (بحارالأنوار، علامه مجلسی ج44 ص329)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
یہ حسین بن علی کی وصیت ہے اپنے بھائی محمد حنفیہ کے نام
حسین گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور نہ ہی اس کا کوئی شریک ہے؛
محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں جو اس کی طرف سے دین حق لے کر آئے ہیں
اور حسین یہ بھی گواہی دیتا ہے کہ جنت اور دوزخ حق و حقیقت ہیں اور روز جزا کے آنے میں کوئی شک نہیں ہے؛
اور اس روز یقیناً اللہ تمام اہل قبور کو زندہ کردے گا۔
[ امام کے قیام کا مقصد ]
مدینہ سے میرا نکلنا نہ خودپسندی اور تفریق کی غرض سے ہے اور نہ فساد اور ظلم و ستم میرا مقصد ہے
میں تو صرف اس لئے نکلا ہوں کہ اپنے نانا کی امت کی اصلاح کروں؛
میں چاہتا ہوں کہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کر انجام دوں اور یوں اس انجام دہی میں اپنے نانا اور اپنے والد گرامی کی سیرت کی پیروی کروں؛
اب اگر کوئی میری دعوت کو حق سمجھ کرقبول کرے تو اس نے اللہ کا راستہ اختیار کیا ہے
اور اگر میری دعوت کو مسترد کر دے تو میں صبر کروں گا یہاں تک کہ اللہ میرے اور ان
افراد کے درمیان فیصلہ کرے اور اللہ ہی بہترین فیصلہ کرنے والا ہے ؛
اے برادر!
یہی آپ کے لئے میری وصیت ہے اور میری توفیقات تو صرف اللہ کی جانب سے ہیں
اسی پر میرا بھروسہ ہے اور اسی کی جانب مجھے پلٹنا ہے۔
Add new comment