مولا نے اپنے قیام کا مقصد واضح کردیا ہے اور ہمارے لئے فریضہ بھی معین فرمادیا کہ یاد رکھو جب حق پر عمل نہ ہو رہا ہو اور باطل رواج پارہا ہو تو اُس وقت ایک مومن کے لئے خاموش رہنا جائز نہیں ہے بلکہ اُسے ظالموں کے خلاف میدان میں اترنا ہوگا۔
امام حسینؑ کے قیام کے بارے میں تین قسم کے نظریات پائے جاتے ہیں:
۱۔ دشمنوں کا نظریہ:انکے مطابق یہ اقتدار کے حصول کی جنگ تھی اور امام حسین (علیہ السلام) حکومت کا ارادہ رکھتے تھے، جسکو وہ حاصل نہ کرسکے۔
۲۔ نادان دوستوں کا نظریہ:آپ اس لئے شہید ہوئے تاکہ امت کے گناہوں کا کفارہ قرار پائیں (تاکہ امت کے بہشت میں جانے کی راہ آسان ہوجائے) انہوں نے وہی نظریہ اپنایا جوعیسائیوں نے حضرت عیسی کے بارے میں اپنایا کہ آپکو سولی پر لٹکائے جانے سے امت کے گناہوں کو معاف کردیا گیا ۔لیکن آئے دیکھیں خود سید الشہداء اپنے قیام کا کیا ہدف قرار دیتے ہیں․
۳۔ نظریہ سید الشہداء:”انی لم اخرج اشرا و لا بطرا ولا ظالما ولا مفسدا انما خرجت لطلب الاصلاح فی امة جدی۔ ارید ان آمر بالمعروف و انھی عن المنکر و اسیر بسیرة جدی و ابی علی ابن ابی طالب“میرا قیام خودپسندی و گردن کُشی اور ظلم و فساد پھیلانے کے لئے نہیں ہے بلکہ میرا قیام اپنے جد کی امت کی اصلاح کے لئے ہے، میں امر بالمعروف ونہی عن المنکر انجام دینا چاہتا ہوں اور اپنے نانا اور والد علی ابن ابی طالب کی سیرت کو اپنانا چاہتا ہوں۔
امام کا یہ کلام بہت ہی کلیدی اہمیت کا حامل ہے، امام کا یہ کلام گویا دو حصوں پر مشتمل ہے، پہلے حصے میں دشمن کی طرف سے ممکنہ تہمتوں کا جواب دیا ہے اور دوسری حصے میں اپنے قیام کے اہداف و مقاصد کو واضح طور پر بیان کردیا ہے۔
امام بخوبی آگاہ تھے کہ میری شہادت کے بعد دشمن پروپیگنڈہ کرکے میرے اس قیام کو مختلف نام دے کر تحریف کی نظر کردے گا اسی لئےآپ نے تا قیامت آنے والی نسلوں پر یہ روشن کردیا کہ میرے قیام کا مقصد(۱ ) فخر و مباہات نہیں ہے۔(۲) قتل و غارت کرنا نہیں ہے۔(۳) فساد کو رواج دینا نہیں ہے۔(۴) اور ظلم کو عام کرنا نہیں ہے بلکہ میرے اہداف اس سے بالکل ہٹ کر ہیں، میرا یہ قیام: (الف) اپنے جد کی امت کی اصلاح کے لئے ہے جو فساد کا شکار ہوچکی ہے اور اپنی فطرت (اسلام ) سے دور ہوچکی ہے۔(ب) امر بالمعروف و نہی عن المنکر کو معاشرے میں رواج دینے کے لئے ہے کیونکہ یہ اسلام کے دو بنیادی و اساسی رکن ہیں اوراسلام کا نظام انہی کی بدولت قائم ہے۔ جبکہ موجودہ معاشرہ ان دونوں کو فراموش کرچکا ہے۔لہذا اسلام کا وجود خطرے میں پڑ گیا ہے۔(ج) اپنے جد اور والد گرامی کی سیرت پر عمل پیرا ہونے کے لئے ہے کہ جنکی آغوش میں اسلام پروان چڑھا اورجنہوں نے اسلام کی حفاظت کے لئے مشرکین اورمنافقین کی اذیتیں برداشت کیں۔[حماسہٴ حسینی ج۲،ص۵۸]
ماخذ: مطہری، حماسہٴ حسینی ج۲،ص۵۸ (چاپ ۲۹)
Add new comment