خلاصہ: اس مضمون میں امام حسین(علیہ السلام) کے اس قول:«إِنَّمَا خَرَجْتُ لِطَلَبِ الْإِصْلَاحِ فِي أُمَّةِ جَدِّي، میں صرف اپنے جد کی امت کی اصلاح کی غرض سے نکل رہا ہوں». کی مختصر وضاحت کے ساتھ، اصلاح کے عنوان سے ہماری ذمہ داری کو بیان کیا گیا پے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
امام حسین(علیہ السلام) کے قیام کا محرک اس وقت کے مسلمانوں کی ابترحالت اور خاص کر اس زمانہ کی حکومتوں کا طرزِ عمل تھا جس کی وجہ سے حدودِ الٰہی معطل تھے، فقراء برے حال میں تھے اور بیت المال کے اموال ناجائز طریقوں سے خرچ ہو رہے تھے، امام حسین(علیہ السلام)، اس صورتحال کے خاتمہ کے لئے خود کو دوسروں سے زیادہ ذمہ دار سمجھتے تھے کیونکہ آپ نواسۂ رسول اور امامِ مسلمین تھے اور ان حالات کو خاموش تماشائی کی حیثیت سے نہیں دیکھ سکتے تھے، اسی لئے امام(علیہ السلام) نے اپنے قیام کے اہداف و مقاصد واضح فرمائے، چنانچہ اپنے بھائی محمد ابن حنفیہ کو ایک وصیت نامہ میں امام(علیہ السلام) نے اس طرح ارشاد فرمایا: «إِنَّمَا خَرَجْتُ لِطَلَبِ الْإِصْلَاحِ فِي أُمَّةِ جَدِّي[۱] میں صرف اپنے جد کی امت کی اصلاح کی غرض سے نکل رہا ہوں»۔
امام(علیہ السلام) نے اس ارشاد کے ذریعہ واضح کردیا کہ آپ کی جدوجہد، آپ کا سفر، آپ کا قیام، آپ کی شہادت کا مقصد ذاتی مفادات، شہرت، دولت کی خاطر نہیں تھا بلکہ آپ کا مقصد صرف اور صرف امت کی اصلاح تھا۔ اس جدوجہد نے اس اصول کی بنیاد ڈال دی ہیکہ جب بھی جس دور میں بھی جس خطہ میں بھی اور جن حالات میں بھی اس قسم کی صورت حال درپیش ہوں تو عظیم مقاصد اور اجتماعی مفادات کے لئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہیے۔ تاریخ شاہد ہے کہ ۱۰محرم، سن۶۱ھ کے بعد جب بھی حریت کی تاریخ رقم ہوئی، جب بھی ظلم کے خلاف قیام کا مرحلہ آیا، جب بھی فساد کے خاتمہ کے لئے جدوجہد ہوئی اور جب بھی جبر کے ساتھ مسلط رہنے والی حکومتوں کی مزاحمت کی بات نکلی تو سب حریت پسندوں اور تمام تحریکوں نے امام حسین(علیہ السلام) اور کربلا سے ضرور استفادہ کیا۔
اس فصیح و بلیغ بیان میں آپ نے اپنے اہداف و مقاصد اور اسلام کے تحفظ اور دین کی بقاء کے لئے اپنے خدا اور اپنے نانا حضرت محمد مصطفی(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی طرف سے عائد کی گئی ذمہ داریوں کو مکمل طور پر بیان فرمادیا ہے۔
امام(علیہ السلام) نے مدینہ سے کربلاء کی جانب اپنے عاشقانہ سفر میں اپنے خطوط و خطبوں میں قیام کی وجوہات واضح کرنے کے لئے کئی مرتبہ اس دور کی صورت حال اور حالات کی ابتری کی منظر کشی فرمائی جس کو اگر تھوڑی سے دقت نظر کے ساتھ مطالعہ کیا جائے تو بخوبی یہ بات روشن ہوجاتی ہے کہ امام(علیہ السلام) نے کیونکر قیام فرمایا۔
سیرت امام حسین(علیہ السلام) کی روشنی میں امت کی اصلاح کا سلسلہ ماضی میں بھی جاری رہا اور اب بھی جاری ہے اور آیندہ بھی جاری رہیگا۔
نتیجہ:
برائیوں اور مفاسد کو دور کرنے اور دنیا کو ایک عادلانہ نظام فراہم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے اصلاح امت کا بنیادی فریضہ انجام دیا جائے۔ یہ فریضہ انجام دینے والوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ امام حسین(علیہ السلام) کے فرامین، کردار، سیرت، عمل اور جدوجہد سے استفادہ کریں، اصلاح امت کی اہمیت کا احساس کرتے ہوئے اپنے مسلکی، فروعی، ذاتی اور جماعتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر اصلاح امت کا کام جاری رکھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے:
[۱]۔ محمد باقر مجلسى، دار إحياء التراث العربي، ج۴۴، ص۲۶۹، ۱۴۰۳ ق.
Add new comment