خلاصہ: کربلا میں موجود بچوں کا شعور، ان کے سن و سال سے کہیں زیادہ تھا جو معمولا دیگر عام بچوں میں نہیں نظر آتا۔
کربلا میں ہر سن و سال کے افراد اور ہر گروہ کے نمایندے موجود تھے، چھ مہینہ کے کمسن سے لیکر ۸۰ سال کے ضعیف تک موجود تھے لیکن کوئی بھی اپنے سن و سال کے اعتبار سے کسی سے کم نہ تھا بلکہ اپنے آپ میں ایک مثال تھا۔ جس کسی کو دیکھا وہ اپنے مقام پر بجا اور اپنے کردار کو بخوبی نبھاتا ہوا نظرآیا۔ اگر اس تصور کو دوسرے الفاظ کا جامہ پنھانا ہو تو جناب زینب سلام اللہ علیہا کے مشہور و معروف، عمیق اور معنی و مفہوم سے سرشار جملے کا سہارا لیتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ واقعہ کربلا کے ہر پہلو اورہر مرحلہ میں سوائے خوبصورتی اور جمال کے کچھ اور نظر ہی نہیں آتا۔
یقینا واقعہ کربلا کی اس خوبصورتی اور جمال کو ان ننھے اور تازہ پھولوں نے اور رونق بخشی اور اس کے حسن میں چار چاند لگایا جو اس وقت اپنی کمسنی کے عالم میں اس سرزمین پر اپنے امام وقت کے ہمرکاب تھے اور اپنے قد و قامت کے مطابق اپنےشعور کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے فریضہ کو ادا کر رہے تھے۔
اور پھر وہ بچے شعور کی اس منزل پر فائزہوتے بھی کیسے نہ؟ آخر انکی تربیت جو اس معیاری اور مثالی طریقہ پر ہوئی تھی۔ ان میں سے کچھ تو اہلبیت علیہم السلام کے گھرانے کے پروردہ تھے تو کچھ اصحاب اہلیبیت کے۔ اور ان سب کے علاوہ ان کے شعور کے کمال تک پہونچنے کے لئے یہی کافی تھا کہ انھوں نے سرزمین کربلا تک کا سفر، معصوم اور وقت کے امام کے ساتھ کیا اور اس پورے راستہ میں امام وقت کے کردار، اعمال، رویہ اور عبادتوں کو دیکھا اور اس دائمی اور ہمہ گیر نور سے فیضیاب ہوتے رہے۔
جب ایسے ماحول، گود اور حالات میں بچوں کی تربیت ہوتی ہے تو ہی ان بچوں کا شعور اپنی اعلیٰ منزل پر پہونچتا ہے اور پھر ایسے بچے اپنے کردار سے ایسی تاریخ رقم کرجاتے ہیں جو رہتی دنیا تک ہر باشعور شخص کو انگشت بدنداں کردیتی ہے۔
Add new comment