خلاصہ: اہل بیت (علیہم السلام) کی حیات طیبہ کے دوران مختلف ظالم اور غاصب خلفاء نے حکومتیں کیں اور طرح طرح کے ظلم و تشدد کیے۔ اہل بیت (علیہم السلام) حالات کے تقاضوں اور حکمت عملی کے مطابق اقدام کرتے تھے، ان اقدامات میں سے ایک خفیہ مقابلہ ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تمام ائمہ طاہرین (علیہم السلام) نے اپنے دور کے دشمن سے حالات کے تقاضا کے مطابق مقابلہ کیا ہے، مگر ان حضراتؑ نے دشمنوں کے مقابلہ میں دو طرح کا طریقہ اپنایا ہے: کھلم کھلا مقابلہ اور خفیہ مقابلہ۔
خفیہ مقابلہ یہ ہے کہ جب معاشرہ کے حالات ایسے ہوتے تھے کہ دشمن سے مقابلہ کرنے سے حق کے لشکر کے بکھر جانے اور شکست کھانے کا باعث بنتا جبکہ معاشرہ کے اسی ماحول کی وجہ سے اسلام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا تھا حتی طویل عرصہ کے بعد بھی، بلکہ یہ دشمن کی طاقت اور غلبہ کے مزید مضبوط ہوجانے کا باعث بنتا تو ایسی صورتحال میں ائمہ طاہرین (علیہم السلام) کھلم کھلا مقابلہ کے بجائے، خفیہ مقابلہ اختیار کرتے یعنی انقلابی اقدام اور تلوار سے جنگ نہ کرنے کے باوجود بھی عملی طور پر جابر حکمرانوں سے مقابلہ میں مصروف رہے اور انہی مقابلوں کی وجہ سے ان حضراتؑ کو دباؤ اور قید میں رکھا جاتا تھا اور زہر دی جاتی اور آخرکار شہید کردیا جاتا۔
خفیہ مقابلہ کی مثالوں میں سے یہ ہیں کہ یہ حضراتؑ ظالم حکومت سے ہر طرح کا تعلق، رجحان اور تعاون سے منع کرتے یہاں تک کہ حکومت سے وابستہ عدلیہ میں شکایت درج کرنے اور مقدمہ کرنے سے منع کرتے۔ اس قسم کے مقابلہ کی ایک مثال وہی حکم ہے جو حضرت امام موسی کاظم (علیہ السلام) نے صفوان جمّال کو دیا کہ اس نے اپنے اونٹ ہارون الرشید کو جو وقت کا ظالم خلیفہ تھا، حج کے سفر کے لئے کرایہ پر دئیے ہوئے تھے، تو حضرتؑ نے صفوان کو اس کام سے سخت منع کیا اور اس نے امامؑ کے حکم کے مطابق وقت سے پہلے، سب اونٹ بیچ دئیے۔
خفیہ مقابلہ، ظالم حکومت کی کمزوری کا باعث ہے اور اس بات کی سند اور ثبوت ہے کہ یہ حکومت ناجائز اور غصبی ہے اور اہل بیت (علیہم السلام) کا یہ موقف باعث بنتا تھا کہ لوگ خلفاء کی حقیقت کو پہنچان لیں اور مستقبل میں کھلم کھلا مقابلوں کے لئے راستہ فراہم ہوجائے۔
Add new comment