خلاصہ: سورہ آل عمران کی ساتویں آیت میں قرآن کی آیات کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے: محکم اور متشابہ اور محکم کو امّ الکتاب کا نام دیا ہے۔ اس مضمون میں محکم اور متشابہ کے بارے میں کچھ مطالب پیش کیے جارہے ہیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
محکم و متشابہ علوم قرآن کی اصطلاحات میں سے ہیں۔ اگر محکم اور متشابہ کے لغوی اور اصطلاحی معنی کو مدنظر رکھا جائے تو اس سلسلہ کی آیات کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے: مثلاً سورہ یونس کی پہلی آیت میں فرمایا: "الر كِتَابٌ أُحْكِمَتْ آيَاتُهُ"، "الف، لام، را، یہ وہ کتاب ہے جس کی آیتیں محکم اور مضبوط بنائی گئی ہیں"۔ سورہ زمر کی آیت ۲۳ میں فرمایا: "اللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتَابًا مُّتَشَابِهاً"، "اللہ ہی نے بہترین کلام نازل کیا ہے یعنی ایسی کتاب جس کی آیتیں آپس میں ملتی جلتی ہیں"۔ تیسرا حصہ یہ ہے کہ سورہ آل عمران کی ساتویں آیت کے مطابق قرآن کی آیات دو حصوں میں تقسیم ہوتی ہیں: محکم اور متشابہ، ارشاد الہی ہے: "هُوَ الَّذِي أَنزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ"، "وہ وہی ہے جس نے آپ پر ایسی کتاب نازل کی جس میں کچھ آیتیں تو محکم ہیں۔ جو کتاب کی اصل و بنیاد ہیں اور کچھ متشابہ ہیں"۔
مذکورہ بالا تین آیات میں سے پہلی اور دوسری آیت میں محکم اور متشابہ کے لغوی معنی مدنظر ہیں اور تیسری آیت جو محکم اور متشابہ کو بیان کررہی ہے اس میں اصطلاحی معنی مراد ہیں اور ہماری گفتگو کا مقصد یہی تیسری قسم ہے۔
محکم ان آیات کو کہا جاتا ہے جن کے معنی اتنے واضح ہیں کہ ان کا کوئی دوسرا معنی نہیں کیا جاسکتا اور متشابہ وہ آیات ہیں جن کے ظاہری معنی کے لئے کئی امکان دیئے جاسکتے ہیں۔ قرآن کریم کی اکثر آیات محکم ہیں اور بعض متشابہ ہیں اور ان کو محکم آیات کی طرف پلٹا دینا چاہیے۔ متشابہ آیات جیسے اللہ کی بعض صفات کی آیات، ہدایت و ضلالت، قضاوقدر وغیرہ کی آیات۔
حوالہ:
ترجمہ آیات: ترجمہ قرآن مولانا محمد حسین نجفی صاحب۔
Add new comment