خلاصہ: اہل بیت (علیہم السلام) کیونکہ قرآن کے ہم پلہ ہیں لہذا وہی حضرات، لوگوں کو قرآن کی عظمت اور اس کے معارف کے بارے میں بہترین باتیں، تفسیریں اور ادراک کے طریقے بتاسکتے ہیں، ان حضرات میں سے ایک حضرت امام رضا (علیہ السلام) ہیں جنہوں نے قرآن کے بارے لوگوں کو ہدایت کی ہے، ان ہدایات میں سے چند ایک پر یہاں بحث ہوئی ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حضرت امام علی ابن موسی الرضا (علیہ السلام) نے قرآن کی عظمت کے متعدد پہلووں کو واضح فرمایا ہے، جن میں سے ہم صرف چند احادیث کو بیان کرتے ہیں۔
قرآن کریم، اللہ تعالی کا کلام اور اس کی کتاب ہے اور بغیر اس کے کہ لوگ اللہ کو دیکھ سکیں، اللہ نے قرآن میں تجلی کی ہے، قرآن اللہ کی مضبوط رسی ہے جسے تھامنے کا خداوند متعال نے حکم دیا ہے۔ بنابریں اس رسی کا ایک حصہ اللہ کے قبضہ قدرت میں ہے اور دوسری حصہ لوگوں کے پاس ہے۔ یہ ایسی رسی ہے جس کے بعض مراتب کو بعض دیگر مراتب پر برتری حاصل ہے۔
آیت اللہ جوادی آملی اس بارے میں فرماتے ہیں: (قرآن کریم) کا اعلی مقام سے نچلے مقام کی طرف سیر نزولی ہے اور اس کے برخلاف، نچلے مقام سے اوپر والے مرتبہ کی طرف سیر صعودی کو طے کرتا ہے: "إِنَّا جَعَلْنَاهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ وَإِنَّهُ فِي أُمِّ الْكِتَابِ لَدَيْنَا لَعَلِيٌّ حَكِيمٌ" [2][1] "بیشک ہم نے اسے عربی قرآن قرار دیا ہے تاکہ تم سمجھ سکو۔ اور یہ ہمارے پاس لوح محفوظ میں نہایت درجہ بلند اور پر از حکمت کتاب ہے"۔
قرآن کریم کیونکہ نزول کی ابتدا سے لے کر انتہا تک حق کے ساتھ ہے، کسی طرف سے نہ اگے، نہ پیچھے، نہ دائیں اور نہ بائیں طرف سے گمراہی اور نابودی کی زد میں ہے، اس سلسلے میں ارشاد الہی ہے: " عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَىٰ غَيْبِهِ أَحَدًا ۔ إِلَّا مَنِ ارْتَضَىٰ مِن رَّسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًا ۔ لِّيَعْلَمَ أَن قَدْ أَبْلَغُوا رِسَالَاتِ رَبِّهِمْ وَأَحَاطَ بِمَا لَدَيْهِمْ وَأَحْصَىٰ كُلَّ شَيْءٍ عَدَدًا"[3]، " وہ عالم الغیب ہے اور اپنے غیب پر کسی کو بھی مطلع نہیں کرتا ہے۔ مگر جس رسول کو پسند کرلے تو اس کے آگے پیچھے نگہبان فرشتے مقرر کردیتا ہے۔ تاکہ وہ دیکھ لے کہ انہوں نے اپنے رب کے پیغامات کو پہنچادیا ہے اور وہ جس کے پاس جو کچھ بھی ہے اس پر حاوی ہے اور سب کے اعداد کا حساب رکھنے والا ہے"۔ لہذا قرآن کریم وجود میں آنے کے لحاظ سے جہل و خطا سے معصوم ہے اور باقی رہنے میں گمراہی اور بطلان سے محفوظ ہے، کیونکہ حق کے بعد ضلالت اور نابودی کے علاوہ کچھ نہیں۔ قرآن سے آگے بڑھنا، قرآن سے پیچھے رہ جانے کی طرح، گمراہی ہے اور قرآن سے دائیں بائیں کی طرف بھٹک جانا، سرگردانی اور آوارگی ہے، کیونکہ اصلی راستہ وہی درمیان والا راستہ ہے جو ایسا سیدھا راستہ ہے جو اللہ کی طرف جانے والے شخص کو منزل تک پہنچاتا ہے۔
ریان بن صلت نے حضرت امام رضا (علیہ السلام) سے عرض کیا: آپ قرآن کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟
حضرت نے ارشاد فرمایا: " كلام الله لا تتجاوزوه، ولا تطلبوا الهدى في غيره فتضلوا"[4]، )"وہ) اللہ کا کلام ہے اس سے آگے مت بڑھو اور ہدایت کو اس کے علاوہ میں طلب مت کرو کہ گمراہ ہوجاوگے۔
حضرت امام رضا (علیہ السلام) قرآن کریم کی عظمت کے سلسلے میں فرماتے ہیں: " هو حبل الله المتین و عروته الوثقی و طریقته المثلی المؤدی الی الجنة و المنجی من النار، لا یخلق علی الأزمنة و لا یغث علی الألسنة؛ لأنه لم یجعل لزمان دون زمان، بل جعل دلیل البرهان و الحجة علی کل انسان، لا یأتیه الباطل من بین یدیه و لا من خلفه، تنزیل من حکیم حمید"[5]، "قرآن اللہ کی مضبوط رسی ہے اور اس کا محکم حلقہ ہے اور اس کا مثالی راستہ ہے جو جنت کی طرف لے جاتا ہے اور آگ سے نجات دیتا ہے، زمانوں سے خلق نہیں ہوا (مختلف زمانوں سے متاثر نہیں ہوتا) اور دہرانے سے اس کی قدر کم نہیں ہوتی، کیونکہ کسی خاص زمانہ کے لئے قرار نہیں دیا گیا، بلکہ واضح دلیل اور ہر انسان پر حجت قرار دیا گیا ہے، باطل کا اس کے پاس سے گزر نہیں ہے وہ نہ اس کے آگے سے آسکتا ہے اور نہ پیچھے سے یہ اس ذات کی طرف سے نازل شدہ ہے جو بڑی حکمت والی ہے (اور) قابلِ ستائش ہے"۔[6]
انہی فقروں سے ملتی جلتی حدیث امام رضا (علیہ السلام) نے اپنے والد گرامی سے نقل کی ہے کہ کسی آدمی نے حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے دریافت کیا: " مَا بَالُ الْقُرْآنِ لَا يَزْدَادُ عِنْدَ النَّشْرِ وَ الدِّرَاسَةِ إِلَّا غَضَاضَةً" کیا وجہ ہے کہ قرآن شائع کرنے اور درس دینے (تفسیر کرنے) کے موقع پر ہمیشہ نیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا: "لِأَنَّ اللَّهَ لَمْ يُنْزِلْهُ لِزَمَانٍ دُونَ زَمَانٍ وَ لَا لِنَاسٍ دُونَ نَاسٍ فَهُوَ فِي كُلِّ زَمَانٍ جَدِيدٌ وَ عِنْدَ كُلِّ قَوْمٍ غَضٌّ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ"[7] کیونکہ اللہ نے اسے کسی خاص زمانہ کے لئے اور نہ ہی خاص لوگوں کے لئے نازل کیا ہے، اسی لیے وہ ہر زمانہ میں نیا ہے اور ہر قوم کے ہاں تازہ ہے قیامت کےدن تک۔
نیز واضح رہے کہ اہل بیت (علیہم السلام) ہمیشہ قرآن کریم کے ساتھ ہیں اور ہرگز قرآن سے جدا نہیں ہوتے۔ اس کی دلیل اور تجزیہ یہ ہے کہ یقیناً قرآن نزول کے ابتدا سے آخر تک حق ہے اور واضح ہے کہ باطل حق سے جدا ہے، اگر اہل بیت (علیہم السلام) سے کوئی ایسا کام سرزد ہو جو قرآن کے منافی اور مخالف ہو تو وہ قرآن سے جدا ہوجائیں گے جبکہ حدیث ثقلین کے پیش نظر اہل بیت )علیہم السلام) اور قرآن کے درمیان جدائی ہرگز ممکن نہیں، لہذا اگر ان حضرات کی قرآن سے جدائی ممکن نہیں تو ان سے کوئی ایسا کام سرزد نہیں ہوسکتا جو قرآن کے منافی ہو، اسی لیے حضرت امام رضا (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "اذا کانت الروایات مخالفة للقرآن، کذبتها[8]، "اگر روایات قرآن کے مخالف ہوں تو میں روایات کو جھٹلا دیتا ہوں"۔ آپ نے یہ حدیث تب ارشاد فرمائی جب ابوقرہ نے اللہ کے دیکھے جانے کا محال ہونے کی بحث میں حضرت سے کہا: پھر آپ روایات کو جھٹلاتے ہیں؟ در اصل ابوقرہ اور اس جیسے لوگوں کو اس حقیقت کا علم نہیں تھا جو امام (علیہ السلام) نے بیان فرمائی۔
ایک اور بحث جس کے بارے میں حضرت امام رضا (علیہ السلام) سے حدیث پائی جاتی ہے محکم اور متشابہ کی بحث ہے جو علوم قرآن کی اصلاحات میں سے ہے۔ سورہ مبارکہ آل عمران کی آیت ۷ کی بنیاد پر قرآن کریم کی آیات دو قسموں پر تقسیم ہوتی ہیں: محکم اور متشابہ۔ محکم، قرآن کی ان آیات کو کہا جاتا ہے جن کا معنی اتنا واضح ہے کہ اس کا کوئی دوسرا معنی نہیں کیا جاسکتا اور متشابہ وہ آیت ہوتی ہے جس کے ظاہری معنی کے لئے مختلف احتمالات پائے جاتے ہیں۔ اس سلسلہ میں اس بات پر توجہ رہے کہ سارا قرآن حتی متشابہات ایسے معنی کی حامل ہیں جن تک رسائی ممکن ہے، لیکن متشابہات کے معنی کو محکمات کی روشنی میں حاصل کرنا چاہیے
حضرت علی ابن موسی الرضا (علیہ آلاف تحیۃ والثنا) فرماتے ہیں: " مَن رَدَّ مُتَشابِهَ القرآنِ إلى مُحكَمِهِ هُدِيَ إلى صِراطٍ مُستَقيمٍ"[9]، "جو شخص قرآن کی متشابہ (آیات) کو قرآن کی محکم (آیات) کی طرف پلٹائے، وہ صراط مستقیم کی طرف ہدایت پاچکا ہے۔ نیز حضرت فرماتے ہیں: "إنَّ في أخْبارِنا مُتَشابِها كمُتَشابِهِ القُرآنِ ، ومُحْكَما كمُحْكَمِ القُرآنِ ، فَرُدّوا مُتَشابِهَها إلى مُحْكَمِها ، ولا تَتَّبِعوا مُتَشابِهها دُونَ مُحْكَمِها فتَضِلّوا" [10]، "یقیناً ہماری روایات میں متشابہ روایات پائی جاتی ہیں قرآن کی متشابہ کی طرح اور محکم پائی جاتی ہیں قرآن کی محکم کی طرح، پس متشابہ روایات کو محکم روایات کی طرف پلٹا دو"۔
آپ کی اس حدیث شریف سے چند نکتے حاصل ہوتے ہیں جن میں سے دو نکتے مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ قرآن کی متشابہ آیات کو محکم آیات کی طرف پلٹانا چاہیے، ورنہ غلط نتیجہ اخذ ہوگا جو انسان کی گمراہی کا باعث بن جائے گا۔ لہذا تشابہ کا مطلب یہ نہیں کہ متشابہ آیات قابل فہم و ادراک نہیں اور استفادہ کے لائق نہیں ہیں، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ متشابہ آیت کی محکم آیت کے ذریعے تفسیر ہونی چاہیے۔
۲۔ چونکہ اہل بیت (علیہم السلام) کی روایات میں بھی اللہ کی کتاب کی طرح محکم و متشابہ پائی جاتی ہیں، لہذا اہل بیت (علیہم السلام) کے بیانات میں بھی توجہ رہنی چاہیے کہ متشابہ کو محکم کی طرف پلٹایا جائے، بنابریں اس ضابطہ کو "حدیث شناسی" اور " قواعد سنت کے فہم و ادراک" کے اصول میں قرار دینا چاہیے اور اس قاعدہ کو مدنظر رکھتے ہوئے روایات کو پرکھنا چاہیے۔
نتیجہ: کیونکہ اہل بیت (علیہم السلام) منجملہ حضرت امام علی ابن موسی الرضا (علیہ السلام) سے بڑھ کر کوئی شخص قرآن کریم کی عظمت سے آگاہ نہیں ہے تو اس کے حقیقی محافظ، مفسر اور وضاحت کرنے والے بھی وہی حضرات ہیں۔ حضرت امام رضا (علیہ السلام) نے قرآن کریم کے سلسلے میں مختلف بیانات ارشاد فرمائے ہیں جن پر آدمی غور و خوض کرتے ہوئے، قرآن کی عظمت کے بعض پہلووں سے آگاہ ہوکر اس پر عمل پیرا ہوسکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] سورہ زخرف، آیات 3،4۔
[2] قرآن کریم از منظر امام رضا علیه السلام۔
[3] سورہ جن، آیات 26 سے 28 تک۔
[4] بحار الأنوار، ج 89 ، ص 117۔
[5] البرهان في تفسير القرآن، ج1، ص65۔
[6]اس حدیث کا آخری حصہ جو آیت قرآنی سے ماخوذ ہے، اس کا ترجمہ علامہ ذیشان حیدر جوادی (اعلی اللہ مقامہ) کے ترجمہ قرآن سے یہاں پر نقل ہوا ہے۔
[7] عيون أخبار الرضا عليه السلام، ج2، ص: 87۔
[8] مسند الامام الرضا علیه السلام، ج 1، کتاب التوحید، ص 16، ح 7۔
[9] عيون أخبار الرضا عليه السلام: 1/290/39۔
[10] عيون أخبار الرضا عليه السلام: 1/290/39۔
Add new comment