خلاصہ: قرآن اور اہلبیت اطہار(علیہم السلام)، دین کے معارف کے حصول کا ذریعہ اور حقیقی راستہ ہیں، ان دونوں میں سے کسی ایک سے بے توجہی، انسان کو گمراہی اور ضلالت کے دلدل میں دھکیل دیگی۔ ان دونوں کے درمیان عمیق تعلق ہے جو خداوند عالم کی جانب سے ہے۔ قرآن مجید میں بہت سی ایسی آیات ہیں جو اہلبیت(علیہم السلام) کی شان میں نازل ہوئی ہیں۔
قرآنی آیات اور متواتر حدیث ثقلین کی رو سے، اہل بیت(علیہم السلام) قرآن کے ہم پلہ ہیں، ان دونوں میں سے کسی ایک سے تمسک اختیار کرنا، دوسرے کو چھوڑ کر، دونوں کو چھوڑنے اور ترک کرنے کے مساوی ہے اور اسی طرح، دین کی تعلیمات تک بغیر آیات و روایات کے رسائی نہیں ہو سکتی۔ در حقیقت، قرآن و عترت، نبوت کا نچوڑ اور رسالت کے پہونچانے کا عظیم راستہ ہیں۔ اور یہی دونوں، قیامت تک کے لئے انسانوں کی ہدایت کے ضامن ہیں[۱]۔
قرآن و اہلبیت اطہار (علیہم السلام) کے بیچ بہت گہرا رابطہ ہے جو خداوند عالم کی جانب سے قرار دیا گیا ہے جبھی تو یہ دونوں ایک دوسرے سے ہرگز جدا نہیں ہوسکتے یہاں تک کہ حوض کوثر سے جا ملیں [۲]۔
قرآن مجید کی بہت سی آیات، اہلبیت (علیہم السلام) کی شان میں نازل ہوئی ہیں ، ابن عباس نے تو یہاں تک کہا ہے کہ صرف امام علی علیہ السلام کی شان میں تین سو (۳۰۰) آیات نازل ہوئی ہیں [۳] بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ قرآن مجید کی تقریبا ایک چوتھائی آیات، اہلبیت علیہم السلام کی شان میں نازل ہوئی ہیں [۴]۔
ذیل میں، اہلبیت (علیہم السلام) کی شان میں نازل شدہ قرآن مجید کی کچھ آیات کو ذکر کر رہے ہیں کہ جن کے بارے میں تمام مسلمانوں کی اتفاق نظر ہے کہ وہ اہلبیت علیہم السلام کے بارے میں نازل ہوئی ہیں؛
آیت مباہلہ
خداوند عالم قرآن مجید میں ارشاد فرمارہا ہے: « فَمَنْ حَآجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاءنَا وَأَبْنَاءكُمْ وَنِسَاءنَا وَنِسَاءكُمْ وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَةَ اللّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ (سورۂ آل عمران؛ ۶۱] یغمبر علم کے آجانے کے بعد جو لوگ تم سے کٹ حجتی کریں ان سے کہہ دیجئے کہ آؤ ہم لوگ اپنے اپنے فرزند, اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں اور پھر خدا کی بارگاہ میں دعا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں »۔
شیعہ اور سنی مفسرین اتفاق نظر رکھتے ہیں کہ اس آیت میں لفظ ’’ ابنائنا‘‘ سے اشارہ ہے امام حسن اور امام حسین (علیہما السلام) کی طرف اور لفظ ’’نسائنا اور انفسنا‘‘ سے مراد جناب زہرا اور حضرت علی (علیہما السلام) ہیں۔ مسلم اور ترمزی نے اپنی کتابوں میں، فضائل علی علیہ السلام کے باب میں سعد ابن وقاص سے نقل کیا ہے : جب یہ آیت نازل ہوئی تو پیغمبر اسلامؐ نے حضرات علی، فاطمہ، حسن اور حسین(علیہم السلام) کو بلایا اور فرمایا: خداوندا! یہ ہمارے اہل ہیں[۵]۔
آیت مودت
خداوند عالم کا ارشاد ہوا: «قُل لاَّ أَسْـَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِى الْقُرْبَى [سورۂ شوریٰ ؛ ۳۲] آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کا کوئی اجر نہیں چاہتا علاوہ اس کے کہ میرے اقربا سے محبت کرو »۔
صحیح مسلم، صحیح بخاری اور مسند احمد ابن حنبل اور تفسیر ثعلبی، سب نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی تو مسلمانوں نے پیغبرؐ سے سوال کیا کہ آپ کہ اقرباء کون ہیں؟ پیغمبر(ص) نے فرمایا : وہ علی، فاطمہ اور میرے دو فرزند(حسن وحسین) (علیہم السلام) ہیں[۶]۔
آیت کلمات
قرآن نے جناب آدم کے توبہ کی داستان کو اس طرح بیان کیا: « فَتَلَقَّى ءَادَمُ مِن رَّبِّهِ كَلِمَـت فَتَابَ عَلَيْهِ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ [سورۂ بقرہ؛ ۳۷]پھر آدم علیہ السّلام نے پروردگار سے کلمات کی تعلیم حاصل کی اور ان کی برکت سے خدا نے ان کی توبہ قبول کرلی کہ وہ توبہ قبول کرنے والا اور مہربان ہے» ۔
جلال الدین سیوطی نے تفسیر ’’ الدر المنثور‘‘ میں اس آیت کے ذیل میں ابن عباس سے روایت نقل کرتے ہیں کہ ابن عباس نے نبی اکرم(ص) سے ان کلمات کے بارے میں دریافت کیا جن کی بنا پر جناب آدم علیہ السلام کی توبہ مقبول ہوئی تو پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:(جناب) آدم نے محمد، علی، فاطمہ، حسن اور حسین(علیہم السلام) کے وسیلہ سے بخشش طلب کی تھی اور خدا نے بھی قبول کیا[۷]۔
جو کچھ بیان کیا گیا وہ اہلبیت علیہم السلام کے فضائل کے سمندر کے چند قطرے ہیں، ان کے علاوہ بہت سی ایسی آیات ہیں جو ان کے سلسلہ میں نازل ہوئی ہیں کہ جن کو اس مختصر تحریر میں بیان کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[۱]تفسير تسنيم، حضرت آيت الله جوادى آملى، انتشارات اسراء، چ ۱، قم، ۱۳۷۹، ج ۱، ص ۱۳۲۔
[۲] حدیث ثقلین کا مفہوم۔
[۳]الصواعق المحرقه، حيثمى، فصل ۳، باب ۹، ص ۷۶، مكتبة القاهره، چاپ مصر، ۱۳۱۲ ۔
[۴]المراجعات، ص ۴۸۔
[۵]دلائل الصدق، ج ۲، ص ۱۳۵۔
[۶] اهل بيت در كتاب و سنت، رى شهرى، ص ۴۰; رك: و دلائل الصدق، حسن بن محمد مظفر، ج ۲، ص ۱۱۹، انتشارات بصيرت، قم ۱۳۹۵ ق۔
[۷]تفسير الدر المنثور، ج ۱، مذکورہ آیت کے ذيل میں۔
Add new comment