چند مشھور علماء کے نظریات:
خواجہ نصرالدین طوسی( متوفی: 672ھ ق) سے علامہ کے بارے میں جب سوال کیا گیا، تو انہوں نے جواب میں کہا:" رایت خریتاً ماھراً و عالماً اذا جاھد فاق" ان کا مقصد" محقق حلّی" اور کامیاب دانشور" علامہ حلّی" کی زبردست راہنمائی کی طرف اشارہ تھا۔
ابن حجر عسقلانی( متوفی: 852ھ ق):" نے کہا:ابن یوسف بن مطہر حلّی، شیعوں کے عالم اورپیشوا اور مولف ہیں۔ وہ تیز ہوشی میں خدا کی نشانی تھے۔
سید مصطفے تفرشی( متوفی: 1044ھ ق) :" علامہ حلّی اس قدر با فضیلت اور شان و اعتبار کے مالک تھے کہ بہتر ہے کہ ان کی توصیف نہ کی جائے، کیونکہ ان کے بارے میں میری توصیف اور تعریفیں ان کی شان میں کسی قسم کا اضافہ نہیں کرسکتی ہیں۔
صاحب روضات الجنّات( متوفی: 1313ھ ق) کہتے ہیں: " زمانہ نے ان کی جیسی شخصیت کو نہیں دیکھاہے اور ان کے فضائل بیان کرنے سے زبان عاجز ہے۔ ان کے پہلے اور ان کے بعد والے دانشوروں میں کوئی ان کا جیسا نہیں تھا ۔
محدث نوری( متوفی: 1320ھ ق):" بزرگ اور جلیل القدر شیخ، علامہ حلّی، علوم کے سمندر، حکمت و فضائل کے غوّاص، ہدایت و ارشاد کے ناموس کے محافظ، ضلالت کی آواز کو توڑنے والے، دین کے پاسدار، مفسدین کے اثرات کو زائل کرنے والے، وہ اسلام کے علماء اور دانشوروں میں چودھویں کے چاند کے مانند ستاروں میں چمکتے تھے۔
سید محسن امین عاملی( 1377ھ ق):" علامہ حلّی، جن کا لقب" علامہ علی الاطلاق"، ہے۔ کسی شخص نے کسی بھی زمانہ میں اس قسم کے لقب کو تمام علماء کے اتفاق سے حاصل نہیں کیا ہے۔ علماء نے انھیں آیت اللہ کا لقب بھی دیا ہے۔"
محدّث نوری، میرزا حسین، خاتمة المستدرک، ج 2، ص 403، قم، مؤسسه آل البیت(ع)، طبع اول، 1417ق.اعیان الشیعة، ج 5، ص 396.
Add new comment