رضاشاه سال ۱۳۱۳شمسی میں اپنے وزیر محمد علی فروغی کے ساتھ ترکی کا سفر کرتا ہے اور جب سفر سے واپس آتا ہے کہ تو یہ اراداہ کرتا ہے کہ ایران کو ترکی کی طرح ہونا چاہیے یعنی ایران کا تمدن ایک غربی تمدن ہونا چاہیے اور اس کے لیے اس نے شروع میں چند دستور جاری کیے جن میں سے ایک یہ ہے کہ لوگ اپنی ٹوپیوں کو بدلیں اور حجاب نہیں ہونا چاہیے مختلف شہروں میں یونیورسٹی بننا چاہیے فردوسی جشن برپا ہونا چاہیے فرھنگ ایران بدلنا چاہیے اور ان سب کاموں میں سے سب سے پہلا کام جو ہوا وہ یہ کہ شاپو فرھنگ کی ٹوپی پہننا اجباری ہے اور مشھد کیونکہ ایک مذھبی شھر تھا تو لوگوں کا گمان تھا کہ اگر لوگ عمل نہیں کریں گے تو یہ قانون ختم ہو جائے گا لیکن حکومت ان کے مقابلے میں اتر آئی اور لوگ سب مسجد گوہر شاد میں جمع ہو گئے اور حضرت آیت اللہ سید حسین قمی اور شیخ محمد تقی بہلول نے سخنرانی کی اور لوگوں کو متحد کیا لیکن حکومت کے حکم سے فائرنگ ہوئی اور اس میں ۱۶۰۰ یا ۳۰۰۰ لوگ شھید ہو گئے اور اس پورے ماجرے کا اصل قصور وار خراسان کے گورنر فتح اللہ پاکروان کو کہا جاتا ہے ۔
عاقلی، باقر. «جلد یک». در شرح رجال سیاسی نظامی معاصر ایران. نشر علم. تهران: انتشارات گفتار، ۱۳۸۰.
مسجد گوهرشاد پر حملہ
Tue, 07/04/2017 - 07:50
Add new comment