یہ ایک واضح سی بات ہے کہ دین مبین اسلام میں سود لینا اور سود دینا دونوں جائز نہیں ہے چاہے یہ سود قرض کی صورت میں ہی کیوں نہ ہو ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کلی طور پر جائز نہیں ہے یا کوئی استثناء بھی ہے تو ہاں کچھ صورتیں ہیں جیسے اگر ایک مسلمان اس کافر سے سود لے جو اسلام کی پناہ میں نہیں ہے تو جائز ہے اور اسی طرح باپ بیٹا یا میاں بیوی، یہ لوگ بھی ایک دوسرے سے لے سکتے ہیں ۔
اب اگر کوئی یہ کہے مسلمان کا کافر سے اور باپ بیٹا یا میاں بیوی جب ایک دوسرے سے سود لے سکتے ہیں تو اس کی کیا دلیل ہے تو فقھاء نے اس مسئلہ کی دلیل ان روایات کو بتایا ہے کہ جو ائمہ اہل بیت (علیھم السلام) سے نقل ہوئی ہیں البتہ ان روایات میں اس کے جواز کی علت یا حکمت بیان نہیں کی گئی ۔
اس میں مختلف علتیں اور حکمتیں ہو سکتی ہیں ۔
مثلاً باپ پر لازم ہے کہ اپنی استطاعت کے مطابق اپنے بیٹے کے ساتھ مالی تعاون کرتا رہے، اب اگر ایک قرار داد کے مطابق قرار پائے کہ باپ تھوڑا سا سود یا نفع اپنے بیٹے کو دے تو یہ اصل میں وہی مالی تعاون ہے ۔
اور کافر غیر ذمی سے بھی سود لینا اس لیے جائز ہے کہ ان جیسے افراد کی جان و مال کی کوئی ذمہ داری حکومت اسلامی کے ذمہ پر نہیں ہوتی، پس ان سے بعض قرار دادوں کے مطابق سود لینا دور از عقل نہیں ہو گا۔
ابن بابویه، محمد بن على، من لا یحضره الفقیه، ج3، ص 278، دفتر انتشارات اسلامى وابسته به جامعه مدرسین حوزه علمیه قم - قم، طبع: دوم، 1413 ہجری قمری، کلینى، محمد بن یعقوب بن اسحاق، الکافی، ج 5، ص147، دار الکتب الإسلامیة - تهران، طبع: چهارم، 1407 ہجری قمری
Add new comment