سوشل نٹ ورک پر نامحرموں سے چیٹ کرنے کے بارے میں آیت اللہ سیستانی کا فتویٰ

Sun, 04/16/2017 - 11:11

چکیده:

سوشل نٹ ورک پر نا محرموں سے چیٹ کرنے کے بارے میں مومنین کی طرف سے پوچھے گئے سوالات کے جواب میں آیت اللہ العظمیٰ سیستانی نے فرمایا کہ انٹرنٹ کے ذریعے نامحرموں سے غیر ضروری گفتگو کرنا شرعی طور پر جائز نہیں ہے۔

سوشل نٹ ورک پر نامحرموں سے چیٹ کرنے کے بارے میں آیت اللہ سیستانی کا فتویٰ

سوشل نٹ ورک پر نا محرموں سے چیٹ کرنے کے بارے میں مومنین کی طرف سے پوچھے گئے سوالات کے جواب میں آیت اللہ العظمیٰ سیستانی نے فرمایا کہ انٹرنٹ کے ذریعے نامحرموں سے غیر ضروری گفتگو کرنا شرعی طور پر جائز نہیں ہے۔
مومنین کے سوالات اور آیت اللہ سیستانی کا جواب ذیل میں نقل کیا جاتا ہے:

سوال: 
علم اور ٹیکنالوجی کی ترقی اور انٹرنٹ کی سہولت کے پیش نظر سوشل نٹ ورک کی وجہ سے اسلامی سماج میں بہت سارے خاندانی مسائل وجود پا رہے ہیں جن کو یہاں بیان کرنا ضروری سمھجتے ہیں۔
۱: کیا جائز ہے بیوی یا لڑکی شوہر یا ماں باپ کی اجازت کے بغیر سوشل نٹ ورک پر جس مرد سے چاہے چیٹ کرے یا برعکس مرد یا لڑکے نامحرم لڑکیوں کے ساتھ روابط برقرار کریں؟
۲: کیا جب مرد اپنی بیوی سے یا ماں باپ اپنی بیٹی یا بیٹے سے یہ پوچھیں کہ تم انٹرنٹ پر کیا کر رہے ہو اور وہ جواب میں کہیں کہ آپ سے کوئی مطلب نہیں دوسروں کے ذاتی کاموں میں مداخلت کرنے کا آپ کو کوئی حق نہیں۔ تو کیا یہ عمل درست ہے؟
۳: کیا شوہر یا والدین کو یہ حق حاصل ہے کہ جب بیوی یا اولاد دوسروں سے انٹرنٹ پر مخفی طور پر روابط قائم کریں تو وہ انہیں اس کام سے روکیں؟ دوسرے لفظوں میں ایسے موارد میں شوہر یا والدین کا کیا فریضہ ہے؟

آیت اللہ سیستانی کا جواب
نا محرم مرد اور عورت کا ایک دوسرے کو ایس ایم ایس کرنا یا وائس چیٹ کے ذریعے ایک دوسرے سے روابط قائم کرنا شرعا جائز نہیں ہے مگر ضرورت کی حد تک۔ اور سزاوار نہیں ہے کہ عورت اس طریقہ سے سوشل نٹ ورک پر چیٹ میں مشغول ہو کہ شوہر کی نگاہ میں مشکوک ہو جائے اور اسی طرح اولاد بھی۔ بلکہ بعض موارد میں یہ کام حرام ہے مثال کے طور پر بیوی کا طریقہ کار اس قدر مشتبہ ہو کہ عقلاء کی نگاہ میں شوہر کے حقوق کے ساتھ منافات رکھتا ہو یا اولاد کا یہ عمل والدین کی اذیت و آذار کا سبب بنے۔
 اور اگر مسائل کا حل شوہر یا والدین کو چیٹ کے میٹر سے آگاہ کرنے پر موقوف ہو تو اگر ایسا کرنے میں کوئی حرج نہ ہو تو یہ کام کرنا ضروری ہے۔ کلی طور پر یہ جان لینا ضروری ہے کہ شوہر بیوی کی نسبت اور والدین اولاد کی نسبت شرعی ذمہ داری رکھتے ہیں۔ خداوند عالم کا ارشاد گرامی ہے: (یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَکُمْ وَأَهْلِیکُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَیْهَا مَلَائِکَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَا یَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَیَفْعَلُونَ مَا یُؤْمَرُونَ) اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے، اس پر تندخو اور سخت مزاج فرشتے مقرر ہیں جو اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم انہیں ملتا ہے اسے بجا لاتے ہیں۔ (سوره تحریم آیه6)
لہذا بیوی اور اولاد کو چاہیے کہ اس وظیفے کو انجام دینے میں اپنے شوہر اور والدین کی مدد کریں اور اگر ایسا نہیں کریں گے تو شوہر اور والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے کو انجام دیں۔

--------------------------------------------------

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ۔ابنا

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
8 + 2 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 94