خلاصہ: قرآن مجید لوگوں کو صاف صاف الفاظ میں کہرہا ہے کہ جھوٹ بولنے والے شیطان کی ولایت میں ہیں: «هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلَىٰ مَن تَنَزَّلُ الشَّيَاطِينُ تَنَزَّلُ عَلَىٰ كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ يُلْقُونَ السَّمْعَ وَ أَكْثَرُهُمْ كَاذِبُونَ[سورۂ شعراء، آیت: ۲۲۱ اور ۲۲۲] کیا ہم آپ کو بتائیں کہ شیاطین کس پر نازل ہوتے ہیں، وہ ہر جھوٹے اور بدکردار پر نازل ہوتے ہیں»۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اپنے معاشرے کا سرسری طور پر جائزے کے بعد یہ بات آسانی کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ ہمارے لیے ’جھوٹ‘ ہوا اور پانی کی طرح ناگزیر ہوچکا ہے۔ جس طرح ہم ہوا اور پانی کی ضرورت محسوس کرتے ہیں اسی طرح جھوٹ کی طلب بھی محسوس کرتے ہی، بلکہ ہوا اور پانی تو ہم اپنی ضرورت کے مطابق استعمال کرتے ہیں لیکن جھوٹ کا استعمال ہم اپنی ضرورت سے کہیں زیادہ کرتے ہیں۔
مذہبی نقطہ نگاہ کے مطابق جھوٹ صرف اسی وقت بولا جا سکتا ہے جب انسان کو جان جانے کا خطرہ ہو اور جھوٹ بول کر جان بچنے کی امید ہو۔ جھوٹ کی یہ صورت بھی کئی دوسرے حقائق کی موجودگی کے ساتھ مشروط ہے، لیکن اپنی زندگی میں ہم جس طرح ہر لمحہ جھوٹ بول رہے ہیں اس سے لگتا ہے کہ ہمیں ہر وقت اپنی جان جانے کا خطرہ لاحق رہتا ہے۔
شیطان اپنے مقاصد تک پہونچنے کے لئے اور لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے جھوٹ کا سہارا لیتا ہے، سب سے پہلا جھوٹ شیطان نے کہا جس نے اپنے جھوٹ کے ذریعہ حضرت آدم(علیہ السلام) کو بہکایا۔
قرآن مجید لوگوں کو صاف صاف الفاظ میں کہرہا ہے کہ جھوٹ بولنے والے شیطان کی ولایت میں ہیں: «هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلَىٰ مَن تَنَزَّلُ الشَّيَاطِينُ تَنَزَّلُ عَلَىٰ كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ يُلْقُونَ السَّمْعَ وَ أَكْثَرُهُمْ كَاذِبُونَ[سورۂ شعراء، آیت: ۲۲۱ اور ۲۲۲] کیا ہم آپ کو بتائیں کہ شیاطین کس پر نازل ہوتے ہیں، وہ ہر جھوٹے اور بدکردار پر نازل ہوتے ہیں»۔
انسان کو جب جھوٹ بولنے کی عادت ہوجاتی ہے تو وہ آخر کار اس نتیجہ تک پہونچ جاتا ہے کہ اس کو جھوت برا نہیں لگتا جس کے بارے میں خداوند متعال اس طرح فرمارہا ہے: «اسْتَحْوَذَ عَلَيْهِمُ الشَّيْطَانُ فَأَنسَاهُمْ ذِكْرَ اللَّهِ أُولَٰئِكَ حِزْبُ الشَّيْطَانِ أَلَا إِنَّ حِزْبَ الشَّيْطَانِ هُمُ الْخَاسِرُونَ[سورۂ مجادله، آیت:۱۹] ان پر شیطان غالب آگیا ہے اور اس نے انہیں ذکر خدا سے غافل کردیا ہے آگاہ ہوجاؤ کہ یہ شیطان کا گروہ ہیں اور شیطان کا گروہ بہرحال خسارہ میں رہنے والا ہے»۔
نتیجه:
جس کے پاس ذرہ برابر بھی عقل ہے وہ اپنے دین کو دنیا کے مقابلے میں نہیں بیچیگا جو بہت جلد ختم ہوجانے والی ہے، کیونکہ جھوٹ بولنے والا کل قیامت کے دن آخرت کے دن رسوا اور شرمندہ ہونے والا ہے جس کے بارے میں امام کاظم(علیہ السلام) اس طرح فرمارہے ہیں: «إِنَّ الْعاقِلَ لا یكْذِبُ وَ إِنْ كانَ فیهِ هَواهُ[۱] بے شک عقل مند جھوٹ نہیں بولتا، اگر چہ کہ وہ اس میں اس کی خواہش ہو ».
…………………………………………………….
حوالہ:
[۱] الکافی، محمد ابن یعقوب کلینی، ج1، ص19، دار الكتب الإسلامية، تھران، چوتھی چاپ، ۱۴۰۷ق۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مذہبی نقطہ نگاہ کے مطابق جھوٹ صرف اسی وقت بولا جا سکتا ہے جب انسان کو جان جانے کا خطرہ ہو اور جھوٹ بول کر جان بچنے کی امید ہو۔ جھوٹ کی یہ صورت بھی کئی دوسرے حقائق کی موجودگی کے ساتھ مشروط ہے، لیکن اپنی زندگی میں ہم جس طرح ہر لمحہ جھوٹ بول رہے ہیں اس سے لگتا ہے کہ ہمیں ہر وقت اپنی جان جانے کا خطرہ لاحق رہتا ہے۔
شیطان اپنے مقاصد تک پہونچنے کے لئے اور لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے جھوٹ کا سہارا لیتا ہے، سب سے پہلا جھوٹ شیطان نے کہا جس نے اپنے جھوٹ کے ذریعہ حضرت آدم(علیہ السلام) کو بہکایا۔
قرآن مجید لوگوں کو صاف صاف الفاظ میں کہرہا ہے کہ جھوٹ بولنے والے شیطان کی ولایت میں ہیں: «هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلَىٰ مَن تَنَزَّلُ الشَّيَاطِينُ تَنَزَّلُ عَلَىٰ كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ يُلْقُونَ السَّمْعَ وَ أَكْثَرُهُمْ كَاذِبُونَ[سورۂ شعراء، آیت: ۲۲۱ اور ۲۲۲] کیا ہم آپ کو بتائیں کہ شیاطین کس پر نازل ہوتے ہیں، وہ ہر جھوٹے اور بدکردار پر نازل ہوتے ہیں»۔
جھوٹ کے بارے میں خداوند متعال نے جھوٹے پر جو لعنت کی ہے وہ کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے، عام طور پر جھوٹ حسد اپنے آپ کو لوگوں میں اچھا دکھانا اور اپنے فائدے کے لئے بولی جاتی ہے۔
Add new comment