بسم اللہ الرحمن الرحیم
مناجات شعبانیہ جو حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) سے نقل ہوئی ہے اور اس مناجات کو سب ائمہ اطہار (علیہم السلام) پڑھا کرتے تھے، اس کے تیسرے فقرہ کی تشریح کرتے ہوئے، اس سلسلہ میں تیسرا مضمون پیش کیا جارہا ہے۔ امام الموحدین حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) محمدؐ و آل محمدؐ پر صلوات بھیجتے ہوئے مناجات کو شروع کرتے ہیں، اس کے بعد بارگاہ الہی میں عرض کرتے ہیں: "وَ اسْمَعْ دُعَائِی إِذَا دَعَوْتُك وَ اسْمَعْ نِدَائِی إِذَا نَادَیتُك "، "اور میری دعا سن جب تجھے پکاروں اور میری آواز (نداء) سن جب تجھے آواز (نداء) دوں"۔
تشریح
نداءکا لغوی و اصطلاحی مفہوم: راغب کا کہنا ہے کہ نداء، آواز کا اونچا ہونا اور ظاہر ہونا ہے اور بعض اوقات صرف آواز کو کہا جاتا ہے۔ طبرسیؒ کا کہنا ہے: "نَدَي الصوت"، "آواز بہت اونچی ہوئی"۔ "ناداه نِداءً"، "اسے اپنی سب سے اونچی آواز سے پکارا"۔ صحاح اور اقرب الموارد میں آیا ہے کہ "ناداہ: صاح بہ"، "اسے پکارا، یعنی اسے آواز دی"۔ یہاں سے واضح ہوتا ہے کہ نداء، اونچی آواز سے پکارنے کو کہا جاتا ہے۔[1] قرآن کریم میں بھی نداء، اونچی آواز کے معنی میں ذکر ہوا ہے، جیسا کہ ارشاد الہی ہے: "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ[2]"، "اے ایمان والو! جب تمہیں جمعہ کے دن والی نمازکے لئے پکارا جائے (اس کی اذان دی جائے) تو اللہ کے ذکر (نمازِ جمعہ) کی طرف تیز چل کر جاؤ اورخرید و فروخت چھوڑ دو۔ یہ بات تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم جانتے ہو"۔
آیت اللہ مصباح یزدی کا کہنا ہے کہ "ندا اس آواز کو کہا جاتا ہے جو اونچی اور فریاد جیسی ہو اور انسان دور یا حتی قریب سے اپنی آواز کو اونچا کرتا ہے، لیکن سامنے والے شخص تک آواز کو پہنچانے کے لئے نہیں، بلکہ کسی اور مقصد سے، جیسے سکون پانا اور ذہنی سبکدوشی"۔[3]
مجمع البیان سے یوں حاصل ہوتا ہے کہ دعا، مطلق طور پر پکارنا اور نداء اونچی آواز سے پکارنا ہے، لہذا نداء خاص ہے اور دعا عام۔ بعض اوقات ہوسکتا ہے کہ نداء پکارنے کے معنی میں استعمال ہو۔[4]
دعا اور نداء کا فرق:دعا اور ندا کی حقیقت ایک ہی ہے، فرق صرف یہ ہے کہ دعا دھیمی آواز سے پکارنے کو کہا جاتا ہے اور نداء بلند آواز سے پکارنے کو کہا جاتا ہے۔[5] لفظ دعا اور نیز لفظ دعوت کے معنی، مدعو کی توجہ اور نظر کو اس چیز کی طرف متوجہ کرنا ہے جس چیز کی دعوت دی گئی ہے اور اس لفظ کے معنی، لفظ نداء سے زیادہ وسیع ہیں، کیونکہ نداء، لفظ اور آواز سے مختص ہے، لیکن دعا لفظ کے ذریعہ دعوت دینے کو بھی شامل ہوتا ہے اور اشارہ اور خط کے ذریعہ دعوت دینے کو بھی شامل ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ، لفظ نداء وہاں کے لئے مختص ہے جہاں دوسرے شخص کو اونچی آواز سے پکارو، لیکن لفظ دعا میں یہ قید نہیں ہے، چاہے اونچی آواز سے پکارو اور چاہے سرگوشی اور آہستہ دعوت دو، دونوں طریقے دعوت کے ہیں۔[6] نداء اور منادات کا مناجات سے فرق یہ ہے کہ نداء یعنی منادات اونچی آواز سے پکارنے کو کہتے ہیں اور مناجات آہستہ آواز سے پکارنے کو کہا جاتا ہے۔[7]
مناجات کے اس فقرہ کی تشریح: حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کی اس مناجات سے جو اللہ تعالی کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں کہ "میری دعا سن جب تجھے پکاروں اور میری آواز سن جب تجھے آواز دوں"، یہ سوال پیش آتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالی تو سمیع اور سننے والا ہے اور سب آوازوں اور نداوں کو سنتا ہے، پھر آپؑ کیوں اللہ تعالی سے التجا کررہے ہیں کہ میری دعا اور ندا کو سن؟ اس سوال کے کم سے کم دو جواب اور توجیہات بیان کی جاسکتی ہیں:
۱۔ یہ فقرے آپؑ کی اس التجا کی شدت کو واضح کرتے ہیں کہ آپؑ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالی آپ کی دعا کو سنے اور آپؑ پر خاص توجہ فرمائے، یعنی اس کے باوجود کہ آپؑ جانتے ہیں کہ آپؑ کا معبود سمیع اور سننے والی ذات ہے، لیکن آپؑ کا اضطرار اور ضرورتمندی باعث بنی ہے کہ آپؑ اللہ سے سننے کی التجا کریں، یعنی عبد اطمینان حاصل کرنا چاہتا ہے کہ اس کا معبود اس کی دعا سنتا ہے اور مستجاب کرتا ہے۔
۲۔ اللہ دو طرح سنتا ہے: ایک یہ کہ کیونکہ سمیع ہے اور سب آوازوں اور نداوں کو سنتا ہے۔ دوسرا یہ کہ اللہ سنتا ہے تا کہ فریادرسی کرتا ہوا مستجاب کرے، اس طرح کے سننے کو خاص استماع (سماعت) کہا جاتا ہے۔ لہذا امامؑ التجا کررہے ہیں کہ بارالہا! میری دعا کو خاص توجہ اور عنایت کے ساتھ سن تا کہ میری دعا کو مستجاب کرے۔
حضرت موسی (علیہ السلام) اللہ کے مقام ربوبیت کی معرفت رکھتے ہوئے دریافت کرتے ہیں: "يَا رَبِّ أَقَرِیبٌ أَنْتَ مِنِّی فَأُناجِیک، أَمْ بَعِیدٌ فَأُنادِیک"، "(بارالہا!) تو میرے قریب ہے کہ تجھ سے نجوا (رازونیاز) کروں یا تو دور ہے کہ تجھے ندا (آواز) دوں؟"، "فَأَوْحَی اللّه عزّوجلّ إِلَیهِ: یامُوسی! أَنَا جَلِیسُ مَنْ ذَکرَنِی"[8]، "تو اللہ عزوجل نے آپؑ پر وحی کی: اے موسی! میں اس شخص کا ہم نشیں ہوں جو مجھے یاد کرے"۔
سماعت نہ ہونے کی وجہ: کسی محفل میں بیٹھے ہوئے، بچہ یا دیوانہ شخص یا ناواقف آدمی کوئی بات کرتا ہے مگر اس کی بات پر توجہ نہیں کی جاتی، تو کہاجاتا ہے کہ اس کی بات مسموع نہیں ہوئی، یعنی کسی نے اس کی بات کی پرواہ نہیں کی۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ بات کسی کے کان پر نہیں پڑی، بلکہ سنائی دی گئی، لیکن جو بولنے والے اور سننے والے کے درمیان مقام اور اہمیت کے لحاظ سے فرق ہے، اس وجہ سے اس کی بات کی پرواہ نہیں کی گئی، اسی طرح جب ہم اللہ کی بارگاہ میں دعا اور ندا کرتے ہیں تو ہماری آواز کا بارگاہ الہی میں مسموع نہ ہونا اور سنائی نہ دیا جانا اس بات کی دلیل ہے کہ ہمارے اور اللہ کے درمیان گناہوں اور برائیوں کا فاصلہ اور حجاب پڑا ہوا ہے جو باعث بنا ہے کہ پروردگار ہماری دعا اور ندا پر توجہ نہ کرے اور مستجاب نہ کرے، لیکن اگر انسان گناہوں سے دستبردار ہوتا ہوا توبہ کرتا ہے اور اس کے بعد پختہ ارادہ اور اللہ سے عہد کرلیتا ہے کہ آج کے بعد اللہ کی نافرمانی ہرگز نہیں کرے گا اور صرف اللہ کی عبادت کرے گا نہ کہ شیطان کی، تو اس کی استجابت کے لئے راستہ فراہم ہوجائے گا اور اس کی دعا اور ندا، بارگاہ الہی میں سنی جائے گی، اس کی پکار پر توجہ دی جائے گی اور اس کی حاجت مستجاب کی جائے گی۔ نیز واضح رہے کہ اللہ تعالی کو بعض بندوں کی آواز پسند آتی ہے تو ان کی استجابت ہوجاتی ہے مگر دیر سے تا کہ وہ مزید اللہ کو پکارتے رہیں اور بعض کی آواز پسند نہیں آتی تو ان کی بھی ہوسکتا ہے دعا مستجاب ہوجائے اور جلدی مستجاب ہوجائے، کیونکہ اللہ ان کی آواز کو نہیں سننا چاہتا۔
انبیاء کی اللہ کو نداء قرآن کریم میں (جن آیات میں نداء کا لفظ ذکر ہوا ہے): حضرت نوح (علیہ السلام) کے بارے میں ارشاد الہی ہے: "وَنُوحًا إِذْ نَادَىٰ مِن قَبْلُ فَاسْتَجَبْنَا لَهُ فَنَجَّيْنَاهُ وَأَهْلَهُ مِنَ الْكَرْبِ الْعَظِيمِ[9]"، "اور نوح(ع) (کا ذکر کیجئے) جب انہوں نے (ان سب سے) پہلے پکارا اور ہم نے ان کی دعا و پکار قبول کی اور انہیں اور ان کے اہل کو سخت غم و کرب سے نجات دی"۔ نیز حضرت نوح (علیہ السلام) کی ایک اور نداء بھی قرآن نے ذکر کی ہے: "وَنَادَىٰ نُوحٌ رَّبَّهُ فَقَالَ رَبِّ إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي وَإِنَّ وَعْدَكَ الْحَقُّ وَأَنتَ أَحْكَمُ الْحَاكِمِينَ[10]"، "اور نوح(ع) نے اپنے پروردگار کو پکارا اور کہا اے میرے پروردگار میرا بیٹا میرے اہل میں سے ہے اور یقینا تیرا وعدہ سچا ہے اور تو سب فیصلہ کرنے والوں سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے"۔
حضرت زکریا (علیہ السلام): " ذِكْرُ رَحْمَتِ رَبِّكَ عَبْدَهُ زَكَرِيَّا . إِذْ نَادَىٰ رَبَّهُ نِدَاءً خَفِيًّا[11]"، " (اے رسول (ص)) آپ کے پروردگار نے اپنے (خاص) بندے زکریا (ع) پر جو (خاص) رحمت کی تھی یہ اس کا تذکرہ ہے۔ جب انہوں نے اپنے پروردگار کو چپکے چپکے پکارا"۔ ایک اور آیت میں فرمایا: "وَزَكَرِيَّا إِذْ نَادَىٰ رَبَّهُ رَبِّ لَا تَذَرْنِي فَرْدًا وَأَنتَ خَيْرُ الْوَارِثِينَ[12]"، "اور زکریا (ع) کا (ذکر کیجئے) جب انہوں نے پکارا اے میرے پروردگار! مجھے (وارث کے بغیر) اکیلا نہ چھوڑ۔ جبکہ تو خود بہترین وارث ہے"۔
حضرت ایوب (علیہ السلام): "وَأَيُّوبَ إِذْ نَادَىٰ رَبَّهُ أَنِّي مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَأَنتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ[13]"، "اور ایوب (کا ذکر کیجئے) جب انہوں نے اپنے پروردگار کو پکارا مجھے (بیماری کی) تکلیف پہنچ رہی ہے اور تو ارحم الراحمین ہے (میرے حال پر رحم فرما)"۔ نیز ایک اور آیت میں فرمایا: "وَاذْكُرْ عَبْدَنَا أَيُّوبَ إِذْ نَادَىٰ رَبَّهُ أَنِّي مَسَّنِيَ الشَّيْطَانُ بِنُصْبٍ وَعَذَابٍ[14]"، "اور ہمارے بندۂ (خاص) ایوب (ع) کو یاد کرو جب انہوں نے اپنے پروردگار کو پکارا کہ شیطان نے مجھے سختی اور اذیت پہنچائی ہے"۔
حضرت یونس: "وَذَا النُّونِ إِذ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ أَن لَّن نَّقْدِرَ عَلَيْهِ فَنَادَىٰ فِي الظُّلُمَاتِ أَن لَّا إِلَـٰهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ[15]"، "اور ذوالنون (مچھلی والے) کا (ذکر کیجئے) جب وہ خشمناک ہوکر چلے گئے اور وہ سمجھے کہ ہم ان پر تنگی نہیں کریں گے۔ پھر انہوں نے اندھیروں میں سے پکارا۔ تیرے سوا کوئی الہ نہیں ہے۔ پاک ہے تیری ذات بےشک میں زیاں کاروں میں سے ہوں"۔ نیز ایک اور آیت میں فرمایا: "فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَلَا تَكُن كَصَاحِبِ الْحُوتِ إِذْ نَادَىٰ وَهُوَ مَكْظُومٌ[16]"، "پس آپ (ص) اپنے پروردگار کے فیصلے تک صبر کریں اور مچھلی والے (جنابِ یونس(ع)) کی طرح نہ ہوں جب انہوں نے اس حال میں (اپنے پروردگار کو) پکارا کہ وہ غم و غصہ سے بھرے ہوۓ تھے (یا مغموم تھے)"۔[17]
نتیجہ: دعا اور ندا کے معنی کا معمولی فرق ہے کہ نداء اونچی آواز سے پکارنے کو کہتے ہیں اور دعا آہستہ اور اونچا پکارنے کو کہاجاتا ہے۔ اللہ تعالی سمیع ہے، اس کے باوجود جو امیرالمومنین (علیہ السلام) اللہ تعالی سے عرض کرتے ہیں کہ " میری ندا سن جب تجھے پکاروں"، اس سے مراد مستجاب کرنا ہے۔قرآن کی آیات کریمہ سے واضح ہوتا ہے کہ کئی انبیاء (علیہم السلام) نے اللہ کی بارگاہ میں ندا کی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] قاموس قرآن، علی اکبر قرشی، ج7، ص39۔
[2] سورہ جمعہ، آیت 9۔
[3] شکوہ نجوا، آیت اللہ مصباح یزدی، ص19۔
[4] جلوہ گاہ عرفان، شرح مناجات شعبانیہ، ص39۔
[5] آيتاللہ مجتبي تہراني کے بیانات سے ماخوذ۔
[6] ترجمہ تفسیر المیزان، علامہ طباطبائی، ج10، ص52 سے ماخوذ۔
[7] ترجمہ تفسیر المیزان، ج14، ص6 سے ماخوذ۔
[8] بحارالانوار، ج 13، ص 342، روايت 20۔
[9] سورہ انبیاء، آیات 76، 77۔
[10] سورہ ہود، آیت 45۔
[11] سورہ مریم، آیات 2، 3۔
[12] سورہ انبیاء، آیت 89۔
[13] سورہ انبیاء، آیت 83۔
[14] سورہ ص، آیت 41۔
[15] سورہ انبیاء، آیت 87۔
[16] سورہ قلم، آیت 48۔
[17] آیات کا ترجمہ، مولانا شیخ محسن نجفی صاحب کے ترجمہ سے نقل کیا گیا ہے۔
خلاصہ: مناجات شعبانیہ میں حضرت امیرالمومنین علی (علیہ السلام) اللہ تعالی سے رازونیاز کرتے ہوئے یہ طلب کررہے ہیں کہ جب آپ (علیہ السلام)، اللہ کو نداء دیں تو اللہ ان کی نداء سنے اور سننے سے مراد مستجاب کرنا ہے۔ اس مضمون مین نداء کے مختلف پہلووں پر گفتگو کی گئی ہے۔
Add new comment