خلاصہ:مناجات کرنے کے آداب اور تعلیمات۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مقدمه
انسان ایک ایسا موجود ہے جس میں مخلتف طرح کے رجحان پائے جاتے ہیں، انہیں مختلف رجحانوں کی بناء پر اسکے تقاضے بھی مختلف ہوتے ہیں، ایک اہم رجحان جو انسان میں پایا جاتا ہے وہ اسکا معنوی اور اخلاقی رجحان ہے؛ جس کی وجہ سے انسان کو انسان کہاجاتا ہے، اگر یہ نہ ہوتا تو انسان اور دوسری مخلوقات میں کوئی فرق نہ ہوتا۔
اور اسکے اس رجحان کے تقاضہ صرف اور صرف خداوند عالم سے مضبوط ارتباط کے ذریعہ ہی پورے ہوسکتے ہیں۔ خداوند عالم سے رابطہ قائم کرنے کا بہترین راستہ اسکی کی بارگاہ میں مناجات کرنا ہے۔ ماہ مبارک شعبان، مناجات اور استغفار کا مہینہ ہے، اس مہینہ میں ایک خاص مناجات بیان کی گئی ہے جو مناجات شعبانیہ کے نام سے مشھور ہے، جسکی ایک خصوصیت اور کچھ تعلیمات کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے۔
مناجات شعبانیہ کی خصوصیت
ہر مناجات کی اپنی ایک خاصیت ہوتی ہے، مناجات شعبانیہ کی خصوصیات میں سب سے اھم خصوصیت یہ ہےکہ بعض علماء کی اقوال کے مطابق، اس مناجات کو تمام اماموں (علیہم السلام) نے پڑھا ہے کیونکہ اماموں(علیہم السلام) نے اس مناجات کو پڑھا ہے لہذا ہم قلبی طور پر اس مناجات سے مطمئن ہوتے ہیں، اور جب اطمینان کے ساتھ خدا کی بارگاہ میں مناجات کرتے ہیں تو دعا ضرور قبول ہوتی ہے.[۱]
مناجات شعبانیہ کی تعلیمات
اس مناجات میں مناجات کرنے والے کو کچھ چیزوں کی تعلیم دی گئی ہے، جن میں سے بعض حسب ذیل ہیں.
۱. دعا کی ابتداء اور انتھاء میں صلوات کا بھیجنا
امام صادق(علیہ السلام) فرماتے ہیں: «إِيَّاكُمْ إِذَا أَرَادَ أَحَدُكُمْ أَنْ يَسْأَلَ مِنْ رَبِّهِ شَيْئاً مِنْ حَوَائِجِ الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ حَتَّى يَبْدَأَ بِالثَّنَاءِ عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ وَ الْمَدْحِ لَهُ وَ الصَّلَاةِ عَلَى النَّبِيِّ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ثُمَّ يَسْأَلَ اللَّهَ حَوَائِجَهُ[2] جب بھی تم میں سے کوئی خدا سے دنیا یا آخرت کو طلب کرنا چاہے، تو سب سے پہلے خدا کی تعریف کرے اور پیغمبر خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) پر صلوات بھیجے، اسکے بعد اپنی حاجتوں کو طلب کرے»۔
اسکی وجہ آپ نے یہ بیان کی ہے :کیونیکہ صلوات ایک ایسی دعا ہے جو مستجاب ہوتی ہے اگر اس صلوات کے درمیان تمھاری دعا ہو تو خداوند عالم اسکو رد نہیں کرتا۔
مناجات شعبانیہ کا آغاز صلوات سے ہوا ہے: «اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَاسْمَعْ دُعائِی إذا دَعَوْتُکَ۔۔۔۔،»۔
۲. دعا کرنے میں اصرار کرنا
امام صادق(علیہ السلام) فرما رہے ہیں: «بندہ کا دعا کرنے میں اصرار کرنا خدا کو پسند ہے»۔[۳]
اسکی وجہ بھی یہ بیان کی جاسکتی ہے ، کیونکہ بندہ یہ جانتا ہے کہ خدا ہی ہر چیز کا عطاء کرنے والا ہے، اگر اس چیز کو ذھن میں رکھ کر مانگےگا تو اسے خداوند عالم خالی ہاتھ نہیں لوٹائیگا۔
جیسے اس مناجات میں آیا ہے: «إلھِی إنْ حَرَمْتَنِی فَمَنْ ذَا الَّذِی یَرْزُقُنِی»[۴]۔
۳۔ دعا کس طرح کرنا چاہئے
اس مناجات میں تربیت اور تزکیہ کے لئے بہترین گوشے موجود ہیں، ان گوشوں میں سے بعض کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے:
۱۔ اپنے نفس اور شیطان جیسے دشمنوں کے شر سے بھاگ کر خدا کی بارگاہ میں پناہ لینا«هربت الیک».
۲۔ اپنی کمیوں کی طرف متوجہ ہونا اورخدا کی خصوصیات پر توجہ کرنا جیسے خدا کا علم«تعلم مافی نفسی» ۔
۳۔ اس بات کا اقرار کرنا کہ خدا سے کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں ہے«ولایخفی علیک امر منقلبی و مثوای»۔
۴۔ خدا کی بے پناہ رحمت سے امیدوار رہنا«فقد کبر فی جنب رجائک اَملی»[۵].
بندہ جب اپنے آپ کو خدا کی بارگاہ میں پاتا ہے اسی وقت اسطرح کی دعا اور مناجات کرتا ہے ۔
خدا ہم سب کے دلوں سے شیطانی وسواس کو دور کرے اور صرف اور صرف خدا کی بارگاہ میں پناہ لینے کی توفیق عطاء فرمائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے:
[۱]۔ شيخ كليني؛ اصول کافی؛ ج۲، ص۴۷۳.
[۲]۔ شيخ كليني؛ اصول کافی؛ ج۲، ص۴۸۴.
[۳]۔ شيخ كليني؛ اصول کافی؛ ج۲، ص۴۷۵.
[۴] و [۵]۔ مناجات شعبانیہ، مفاتیح الجنان۔
Add new comment