مناجات شعبانیہ حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کی مناجات ہے۔ شیعہ مآخذ نے اس مناجات کو ابن خالویہ سے نقل کیا ہے اور انہوں نے مرسَل طور پر حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) سے نقل کیا ہے۔ روایات کے مطابق، ائمہ معصومین (علیہم السلام) اس مناجات کو ماہ شعبان میں پڑھا کرتے تھے۔ یہ مناجات مفاتیح الجنان میں ماہ شعبان کے مشترکہ اعمال میں "آٹھویں عمل" کے عنوان سے نقل ہوئی ہے اور اس کی ابتدا یہ ہے: "اللّهم صلّ علي محمّدٍ و آل محمّدٍ واسمع دعائي اذا دعَوتُك"...۔ اس مضمون میں مناجات شعبانیہ کی فضیلت اور عظمت کے بارے میں چند بزرگ علماء کے بیانات پیش کیے جارہے ہیں۔
شہید مرتضی مطہری (علیہ الرحمہ) کا مناجات شعبانیہ کے بارے میں کہنا ہے: "یہ دعا ائمہ کی سطح میں ہے، یعنی اس کی سطح بہت بلند ہے۔ انسان اس دعا کو پڑھتا ہے تو سمجھ جاتا ہے کہ اسلام میں مناجات کی روح کیا ہے۔ اس میں عرفان اور اللہ سے محبت اور عشق کے علاوہ، غیراللہ سے کٹ جانے کے علاوہ (کیسے الفاظ استعمال کروں) اور خلاصہ یہ کہ سراسر معنویت کے سوا کچھ نہیں ہے اور حتی ایسی عبارات ہیں کہ ان کا تصور کرنا بھی ہمارے لیے بہت مشکل ہے: "الهى! هَبْ لى كَمالَ الْانْقِطاعِ الَيْكَ وَ انِرْ ابْصارَ قُلوبِنا بِضِياءِ نَظَرِها الَيْكَ حَتّى تَحْرِقَ ابْصارُ الْقُلوبِ حُجُبَ النّورِ فَتَصِلَ الى مَعْدِنِ الْعَظَمَةِ وَ تَصيرَ ارْواحُنا مُعَلَّقَةً بِعِزِّ قُدْسِكَ ... الهى وَ الْحِقْنى بِنورِ عِزِّكَ الْابْهَجِ فَاكونَ لَكَ عارِفاً وَ عَنْ سِواكَ مُنْحَرِفاً"، ان معانی کا بھی تصور ہمارے لیے دشوار ہے۔
عظیم عارف، آیت اللہ مرزا جواد ملکی تبریزی، مناجات شعبانیہ کے بلند مقام کے بارے میں فرماتے ہیں: یہ مناجات، مشہور مناجات ہے اور اس کے اہل، اس کی وجہ سے ماہ شعبان سے مانوس ہوتے ہیں اور اسی لیے اِس مہینہ کے منتظر اور مشتاق ہیں … بہرحال یہ عظیم مناجات ہے اور آل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ) کے تحفوں میں سے ایک تحفہ ہے، اس کی عظمت کو وہی سمجھ سکتا ہے جو صحت مند دل اور سننے والا کان رکھتا ہو اور غافل لوگ اس کے فائدوں اور انوار سے بے نصیب ہیں۔
حضرت امام خمینی (علیہ الرحمہ) نے اپنے سیاسی الہی وصیتنامہ میں مناجات شعبانیہ جیسی مناجات کو شیعہ کے افتخارات میں سے شمار کیا ہے۔
آپ مناجات شعبانیہ کے بارے میں فرماتے ہیں: سب ائمہ (علیہم السلام) اس دعا کو، اس مناجات کو پڑھا کرتے تھے، یہ اس مناجات کی عظمت پر دلیل ہے۔
نیز آپ دوسرے مقام پر فرماتے ہیں: مناجات شعبانیہ ان مناجات میں سے ہے جس کی طرح کی مناجات کم پائی جاتی ہیں، جیسے دعائے ابوحمزہ جو حضرت سجادؑ سے نقل ہوئی ہے، اُس جیسی بھی کم پائی جاتی ہیں اور اِس جیسی بھی کم پائی جاتی ہیں۔ دعائے کمیل شعبان میں وارد ہوئی ہے اور ان دعاوں میں سے ایک ہے جو پندرہ شعبان، پندرہ شعبان کی رات کو پڑھی جاتی ہے، وہ ایسے اسرار پر مشتمل ہے جس تک ہماری رسائی نہیں ہے۔ ائمہ ہدیؑ سے ایسی دعائیں نقل ہوئی ہیں جن کے مطلب میں غور کرنا چاہیے اور جو صاحب نظر ہیں، صاحب معرفت ہیں، ان کی تشریح کریں، لوگوں کو پیش کریں، اگرچہ کوئی شخص واقعیت کے مطابق تشریح نہیں کرسکتا، لیکن ہمیں اس بات سے گزرجانا چاہیے اور اسی پر اکتفاء کرنا چاہیے کہ ہم تابعدار ہیں اور ہم اس بات کے قائل ہیں کہ نور نبوت اور نور امامت، ابتدائے خلقت سے تھا اور آخر تک رہے گا۔
آیت اللہ سید علی خامنہ ای (حفظہ اللہ) مناجات شعبانیہ کی تعریف کرتے ہیں جس کا خلاصہ اور مفہوم یہ ہے: مناجات شعبانیہ ایسا تحفہ ہے جو ہمیں دیا گیا ہے، دعائیں بہت ساری پائی جاتی ہیں، یہ سب دعائیں بلند معانی سے لبریز ہیں، لیکن بعض دعائیں خاص بلندی کی حامل ہیں، میں نے امام بزرگوار (رضوان اللہ علیہ) سے دریافت کیا کہ ائمہ (علیہم السلام) سے نقل ہونے والی دعاوں میں سے، آپ کو کون سی دعا زیادہ پسند ہے اور اس سے آپ نے دل لگایا ہوا ہے؟ فرمایا: دعائے کمیل اور مناجات شعبانیہ۔ آیت اللہ خامنہ ای فرماتے ہیں: جب انسان ان دو دعاوں کی طرف مراجعہ کرتا ہے، غور کرتا ہے تو دیکھتا ہے کہ یہ دو دعائیں کتنی ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں۔
خلاصہ: مناجات شعبانیہ حضرت امیرالمومنین [علیہ السلام] کی اللہ تعالی سے مناجات اور راز و نیاز ہے جسے مناجات شعبانیہ کو سب آئمہ [علیہم السلام] پڑھا کرتے تھے۔
Add new comment