بسم اللہ الرحمن الرحیم
مناجات شعبانیہ جو حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) سے نقل ہوئی ہے اور اس مناجات کو سب ائمہ اطہار (علیہم السلام) پڑھا کرتے تھے، اس کے دوسرے فقرہ کی تشریح کرتے ہوئے، اس سلسلہ میں دوسرا مضمون پیش کیا جارہا ہے۔ سیدالعارفین حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) محمدؐ و آل محمدؐ پر صلوات بھیجتے ہوئے مناجات کو شروع کرتے ہیں، اس کے بعد بارگاہ الہی میں عرض کرتے ہیں: "وَ اسْمَعْ دُعَائِی إِذَا دَعَوْتُك"، "اور میری دعا سن جب تجھے پکاروں"۔
مناجات کے فقرہ کی مختصر وضاحت: مسموع اور سنی جانے والی دعا سے مراد مستجاب ہونے والی دعا ہے۔[1] یعنی امام المتقین (علیہ السلام) اللہ کی بارگاہ میں یہ دعا کررہے ہیں کہ (بارالہا!) میں جب دعا کروں تو میری دعا کو مستجاب فرما۔
دعاکا لغوی و اصطلاحی مفہوم:دعا "د،ع،و" کے مادہ سے ہے، اس کے معنی ہیں کسی چیز کو آواز اور کلام کے ذریعہ اپنی طرف مائل کرنا۔[2] دعا کے اصطلاحی معنی یہ ہیں کہ بندہ اللہ سے خضوع، تضرع اور عبودیت کے ساتھ طلب کرے اور یہ معنی قرآن کی آیات کریمہ سے بالکل واضح ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں لفظ دعا اور اس کے مشتقات ۲۱۵ بار ذکر ہوئے ہیں جو پکارنے، کسی کام کی دعوت دینے، سوال اور عبادت، اللہ سے کوئی چیز طلب کرنے، منہ بولا بیٹا کے معنی میں استعمال ہوئے ہیں۔[3]
تشریح
دعا کا حکم خود اللہ نے دیا ہے: دعا کرنا اور اللہ کو پکارنا اتنا اہم اور ضروری عمل ہے جس کا اللہ نے حکم بھی دیا ہے اور استجابت کا وعدہ دیا ہے اور پھر دعا کو عبادت کہہ کر اس حکم پر عمل نہ کرنے والے کی سخت سزا بھی بتادی ہے، ارشاد فرمایا ہے: "وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ"[4]، "اور تمہارا پروردگار کہتا ہے کہ تم مجھ سے دعا کرو۔ میں تمہاری دعا قبول کروں گا اور جو لوگ میری (اس) عبادت سے تکبر کرتے ہیں وہ عنقریب ذلیل و خوار ہوکر جہنم میں داخل ہوں گے[5]"۔
اللہ کے سمیع ہونے سے مراد: قرآن کریم میں اللہ کی صفت سمیع، ۳۲ بار صفت علیم کے ساتھ ذکر ہوئی ہے اور صفت بصیر کے ساتھ ۱۰ بار، اور صفت قریب کے ساتھ ایک بار۔ نیز "سمیع الدعاء" کا دو مرتبہ تذکرہ ہوا ہے۔ آیات اور احادیث میں اللہ کے سمیع ہونے کا تعلق علیم اور آگاہ ہونے سے ہے، یعنی کوئی آواز اگرچہ خفیہ ہو، اللہ سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔ اللہ کا سمیع ہونا مخلوقات کی طرح نہیں ہے کہ جس سے پہلے جہل اور لاعلمی ہوتی ہے اور آواز، اوزار کے ذریعہ سنی جاتی ہے[6]، جیسا کہ حضرت امام علی (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "و السَّميعُ لا بِأداةٍ"[7]، "اور (اللہ) سمیع ہے، لیکن (سننے کے) اوزار کے ذریعہ نہیں"۔ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "لم یزل اللّه عزّ و جلّ ربنا، … و السمع ذاته و لا مسموع[8]"، "اللہ عزوجل ہمیشہ ہمارا رب ہے … اور سننا اس کی ذات ہے (حتی) جب کوئی سنی جانے والی چیز نہیں تھی"۔ حضرت امام علی رضا (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "إِنَّهُ يَسمَعُ بِما يُبصِرُ ويَرى بِما يَسمَعُ ، بَصيرٌ لا بِعَينٍ مِثلِ عَينِ المَخلوقينَ ، وسَميعٌ لا بِمثلِ سَمعِ السّامِعينَ . . . ولَمّا لَم يَشتَبِه عَلَيهِ ضُروبُ اللُّغاتِ ، ولَم يَشغَلهُ سَمعٌ عَن سَمعٍ ، قُلنا : سَميعٌ لا مِثلُ سَمعِ السّامِعينَ[9]"، "وہ سنتا ہے اس سے جس سے دیکھتا ہے اور دیکھتا ہے اس سے جس سے سنتا ہے، دیکھنے والا ہے (لیکن) اس آنکھ کے ذریعہ نہیں جیسی مخلوقات کی آنکھ ہے اور سننے والا ہے (لیکن) سننے والوں کی سماعت جیسی سماعت کے ذریعہ نہیں… اور کیونکہ مختلف زبانیں اس کے لئے مشتبہ نہیں ہوئیں اور سنی جانے والی (چیز، دوسری) سنی جانے والی (چیز) سے رکاوٹ نہیں بنی تو ہم نے کہا: سننے والا ہے (لیکن) سننے والوں کی سماعت کی طرح نہیں"۔
دعا کی تین حالتیں: "دعا" طلب کرنے اور پکارنے، "نداء" آواز دینے اور "نجوی" رازگوئی کرنے کے معنی میں ہے اور یہ تینوں کا انسان کی ان تین حالتوں سے تعلق ہے جنہیں انسان اپنے پروردگار سے برقرار رکھ سکتا ہے۔ کبھی معمولی حالت میں اور معمولی انداز سے اس سے دعا مانگتا ہے اور کبھی عجز و ناتوانی کی حالت میں فریاد کرتا ہے اور کبھی اللہ سے درددل، رازونیاز اور مناجات کرتا ہے۔
دعا شرعی لحاظ سے: دعا شرعی اصطلاح کے لحاظ سے صرف پکارنا نہیں، بلکہ طلب کرنا ہے عبودیت کے ساتھ، اسی لیے دعا صرف اللہ تعالی کی بارگاہ میں ہونی چاہیے۔ قرآن کریم کئی آیات میں تاکید کرتا ہے کہ صرف اللہ کو پکارو اور کسی مخلوق سے دعا کرنے سے پرہیز کرو۔ اس بارے میں قرآنی آیات کو چار حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
۱۔ وہ آیات جن میں صرف اللہ کو دعا کے لائق سمجھا گیا ہے اور کسی کو اس کا شریک نہیں سمجھا، جیسے ارشاد الہی ہے: "قُلْ إِنَّمَا أَدْعُو رَبِّي وَلَا أُشْرِكُ بِهِ أَحَدًا[10]"، "آپؐ کہئے کہ میں تو صرف اپنے پروردگار کو پکارتا ہوں اور کسی کو اس کا شریک قرار نہیں دیتا"۔
۲۔ وہ آیات جو مکمل طور پر غیراللہ کی دعا سے منع کرتی ہیں، جیسا کہ ارشاد باریتعالی ہے: "وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَداً[11]"، "اور یہ کہ سجدہ کے مقامات خاص اللہ کیلئے ہیں لہذا اللہ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو"۔
۳۔ وہ آیات جو بت پرستوں کو بتوں سے دعا کرنے سے منع کرتی ہیں، جیسا کہ ارشاد الہی ہے: "يَا أَيُّهَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوا لَهُ إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ لَن يَخْلُقُوا ذُبَابًا وَلَوِ اجْتَمَعُوا لَهُ وَإِن يَسْلُبْهُمُ الذُّبَابُ شَيْئًا لَّا يَسْتَنقِذُوهُ مِنْهُ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوبُ"، "اے لوگو! ایک مثال دی جاتی ہے اسے غور سے سنو۔ اللہ کو چھوڑ کر تم جن معبودوں کو پکارتے ہو وہ ایک مکھی بھی پیدا نہیں کر سکتے۔ اگرچہ وہ سب کے سب اس کام کے لئے اکٹھے ہو جائیں۔ اور اگر ایک مکھی ان سے کوئی چیز چھین کر لے جائے تو وہ اسے اس (مکھی) سے چھڑا نہیں سکتے۔ طالب و مطلوب دونوں ہی کمزور و ناتواں ہیں"۔
۴۔ وہ آیات جو اولیاء اللہ سے دعا کرنے سے منع کرتی ہیں، جیسے اللہ تعالی کا ارشاد ہے: "قُلِ ادْعُوا الَّذِينَ زَعَمْتُم مِّن دُونِهِ فَلَا يَمْلِكُونَ كَشْفَ الضُّرِّ عَنكُمْ وَلَا تَحْوِيلًا . أُولَٰئِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَىٰ رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخَافُونَ عَذَابَهُ إِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحْذُوراً"[12]، "جن کو یہ لوگ پکارتے ہیں وہ تو خود اپنے پروردگار کی بارگاہ میں وسیلہ تلاش کر رہے ہیں کہ کون زیادہ قرب رکھنے والا ہے؟ اور وہ اللہ کی رحمت کی امید رکھتے ہیں اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں۔ بے شک تمہارے پروردگار کا عذاب ڈرنے کے قابل ہے"۔
یہ آیت اولیاء پرستوں کے بارے میں ہے، جیسا کہ ابن عباس اس آیت کو حضرت عیسیؑ، حضرت عزیرؑ اور فرشتوں کی عبادت کرنے والوں کے بارے میں جانتے ہیں۔[13] آیت بیان فرمارہی ہے کہ جن افراد کو تم پکارتے ہو اور ان سے اپنی حاجتیں مانگتے ہو، وہ خود پروردگار کی بارگاہ میں وسیلہ تلاش کررہے ہیں اور وہ اللہ کی رحمت پر امید رکھتے ہیں اور اللہ کے عذاب سے ڈرتے ہیں۔ واضح ہے کہ بت نہ وسیلہ تلاش کرتے ہیں کہ اللہ کا تقرب حاصل کریں، نہ اللہ کی رحمت پر امید رکھتے ہیں اور نہ اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں، بلکہ یہ صفات، اولیاء اللہ کی ہیں۔
دعا اور توسل میں فرق: واضح رہے کہ اہل بیت (علیہم السلام) کوبارگاہ الہی میں وسیلہ سمجھ کر، اللہ سے طلب کرنا اور معصومین (علیہم السلام) سے توسل کرنے کی بحث اپنی جگہ پر ثابت شدہ ہے اور شیعہ مذہب کے بنیادی اعتقادات میں سے ہے، مختصراً یہ ہے کہ توسل اور دعا میں فرق ہے۔ وہابیوں کی غلطی اسی فرق کو نہ سمجھ پانے میں ہے، وہ شیعوں پر غیراللہ سے دعا مانگنے کا الزام لگاتے ہیں، پھر ان آیات کے ذریعہ شیعوں کی مذمت کرتے ہیں جو آیات غیراللہ سے دعا کرنے سے منع کرتی ہیں، جبکہ ہم شیعہ، اہل بیت (علیہم السلام) کو اللہ کی بارگاہ میں وسیلہ سمجھ کر، اللہ سے دعا مانگتے ہیں۔
سنی جانے والی اور نہ سنی جانے والی دعا: مناجات شعبانیہ میں حضرتؑ اللہ کی بارگاہ میں عرض کررہے ہیں: "وَ اسْمَعْ دُعَائِی إِذَا دَعَوْتُك"، "اور میری دعا سن جب تجھے پکاروں"۔ کیونکہ بعض دعائیں سنی نہیں جاتیں جیسا کہ نماز عصر کی تعقیبات میں یہ دعا پڑھی جاتی ہے جس میں یہ فقرہ ہے: "اَللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ … مِن دُعاءٍ لا یُسمَع"، "بارالہا! میں تیری پناہ مانگتا ہوں… اس دعا سے جو نہ سنی جائے"۔ اب یہ الگ بحث ہے کہ دعا کی سماعت اور استجابت کے سامنے کیا کیا چیزیں رکاوٹ بن جاتی ہیں اور دعا مستجاب نہیں ہوتی۔ اس سلسلہ میں روایات کی روشنی میں الگ تحقیق کی ضرورت ہے۔
نتیجہ: دعا کے سنے جانے سے مراد دعا کی استجابت ہے۔ حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کے اس جملہ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ایسا نہیں کہ انسان جیسے بھی اللہ کو پکارے اس کی دعا مستجاب ہوجائے گی، بلکہ ہوسکتا ہے کہ دعا مستجاب نہ ہو، لیکن مستجاب نہ ہونا ہماری طرف سے بنائی ہوئی رکاوٹ کی وجہ سے ہے، اللہ کی طرف سے نہیں کیونکہ اس نے خود دعا اور پکارنے کا حکم دیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] شرح مناجات شعبانیہ، محمد محمدی گیلانی، مذکورہ فقرہ کے ذیل میں۔
[2] احمد بن فارس، معجم مقاییس اللغه، ج2، ص358۔
[3] المعجم المفهرس لالفاظ القرآن الکریم، محمدفؤاد عبدالباقی، لفظ دعو کے ذیل میں۔
[4] سورہ غافر، آیت 60۔
[5] ترجمہ مولانا شیخ محسن نجفی صاحب۔
[6] دانش نامہ عقايد اسلامی، محمدی ری شہری، ج6، ص213 سے ماخوذ۔
[7] نہج البلاغہ، خطبہ 152۔
[8] الكافي : ج 1 ص 107 ح 1۔
[9] التوحيد، شیخ صدوق، ص 65 ح 18۔
[10] سورہ جن، آیت 20۔
[11] سورہ جن، آیت18۔
[12] سورہ اسراء، آیات 56، 57۔
[13] مجمع البیان، ج6، ص422۔
خلاصہ: مناجات شعبانیہ کے اس فقرہ میں امیرالمومنین (علیہ السلام) بارگاہ الہی میں جو عرض کرتے ہیں کہ بارالہا! میری دعا کی سماعت فرما، سماعت سے مراد دعا مستجاب کرنا ہے۔ اس مضمون میں اللہ کے سمیع ہونے کے بارے میں اور دعا کے مختلف پہلووں کے سلسلہ میں گفتگو کی گئی ہے۔
Add new comment