صبر و استقامت حضرت زینب سلام اللہ علیھا

Sun, 04/16/2017 - 11:17

خلاصہ: صبر و استقامت حضرت زینب سلام اللہ علیھا

صبر و استقامت  حضرت زینب سلام اللہ علیھا

بسم اللہ الرحمن الرحیم
     
ثانی زہرا(علیہاسلام) حضرت زینب کبریٰ علیہاسلام کی شخصیت کی زندگی کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لیا جاسکتا ہے ۔یقینی طور پر جس نے پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ  حضرت علی علیہ السلام اور حضرت فاطمہ زہرا(علیہا سلام) جیسی الہی و آسمانی شخصیات کے دامن  میں تربیت پائي ہو، اس کی ذات اعلیٰ ترین اور گرانقدر خصوصیات سے آراستہ ہوگی قطعی طور پر آپ جانتے ہیں کہ حضرت زینب علیہا سلام کی حیات طیبہ کا ایک اہم باب کربلا کی جاودانہ تحریک اور قیام عاشورا سے مربوط ہے ۔اموی حکام کے فسق و فجور، ظلم و ناانصافی اور بدعنوانیوں کے خلاف تحریک کے تمام مراحل میں حضرت زینب(علیہا سلام) اپنے بھائی امام حسین علیہ السلام کے ساتھ ساتھ رہیں ۔اپنے بھائی امام حسین(علیہ السلام) سے حضرت زینب علیہا سلام کی محبت اور قلبی لگاؤ کی مثال تاریخ پیش نہیں کرسکی ۔روایات میں ملتا ہے  جب تک آپ روزانہ اپنے بھائی کا دیدار نہ کرلیتی  آپ کو سکون میسر نہ ہوتا ۔
حضرت زینب سلام اللہ علیھا کے صبر کو دیکھنے کے لیے کربلا کا تصور کافی ہے جو مظالم عاشور کے دن پیش آئے آپ ان کے آگے صبر کا پیکر تھیں ،نہیں معلوم کس روح کی مالک تھی آپ ،کہ ایک طرف حریم رسول کا دفاع اور دوسری طرف ۷۲ جنازے   ، صبرو استقامت کی وادی میں بے مثال ہیں زینب ، جب مظلوم بھائی کی لاش پر پہنچی تو ایک مرتبہ آسمان کی طرف دیکھا اور کہا : میرے مالک  آل رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم   سے اس قربانی کو قبول فرمائے ۔[1]
حضرت زینب سلام اللہ علیھا کےیہ الفاظ اس وقت تھے جب بھائی ،بھتیجے اور بیٹوں کے لاشوں کو خوں میں غلطاں دیکھا  یہ ایمانی قوت  تھی کہ صبر کا سہارا لیا اور ہاتھوں کو بلند کیا فرمایا : بار الہاٰ  ، ہماری اس قلیل  قربانی کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے[2]
کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ : حضرت زینب  کے القاب میں سے ایک  لقب  راضیہ ہے  یعنی اس مخدرہ نے بے انتہا مظالم کے سامنے ایسی استقامت دکھائی کہ اگر ان کا تھوڑا سا حصہ بھی پہاڑوں پر آتا تو وہ ریزہ ریزہ ہو جاتے ۔
آپ کو محافظہ امامت کہا جاتا ہے کیونکہ آپ نے کئی بار امام سجاد علیہ السلام کو موت کے منہ سے نکالا  انکی حفاظت کی اور ابن زیاد سے پکار کے کہا جب تک میں زندہ ہوں اپنے بھتیجے کو کچھ نہیں ہونے دوں گی۔ 
دین اسلام میں صبر کی بہت اہمیت بتائی گئی ہے اور قرآن میں یوں ذکر ہوا ہے۔
 وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوفْ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الأَمَوَالِ وَالأنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ
 اور ہم یقینا تمہیں تھوڑے خوف تھوڑی بھوک اور اموال، نفوس اور ثمرات کی کمی سے آزمائیں گے اور اے پیغمبر آپ ان صبر کرنے والوں کو بشارت دے دیں۔[3]
الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُواْ إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعونَ
جو مصیبت پڑنے کے بعد یہ کہتے ہیں کہ ہم اللہ ہی کے لئے ہیں اور اسی کی بارگاہ میں واپس جانے والے ہیں ۔[4]
  أُولَئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ
کہ ان کے لئے پروردگار کی طرف سے صلوات اور رحمت ہے اور وہی ہدایت یافتہ ہیں ۔ [5]
حضرت زینب سلام اللہ علیھا نے دنیا کو صبرکے معاملے میں حیرت انگیز کر دیا یہ وہ ذات ہیں کہ جو ۵ سال کے سن میں مصیبت سے ٹکرائیں ایک کے بعد ایک مصیبت آئی اور شہزادی نے صبر سے ان کا سامنا کیا ۔
کربلا سے کوفہ اور کوفہ سے شام اگر گریہ کیا تو مقصد یہ تھا کہ دنیا والوں کو بتائیں کہ کس طرح اتنی مظلومیت میں نواسہ رسول کو ٹکڑے ٹکڑے کیا گیا اور رسول زادیوں کو بے مقنہ و چادرکر کے شھر بہ شھر پھرایا گیا ۔

..............................................................................

منابع

[1] سید علی نقی فیض الاسلام، خاتون دوسرا (شرح حال زینب)، چ دوم، تهران، نشر آثار فیض الاسلام، 1366، ص 185.
[2] سید علی نقی فیض الاسلام، خاتون دوسرا (شرح حال زینب)، چ دوم، تهران، نشر آثار فیض الاسلام، 1366، ص 185.
[3] سورہ بقرہ،155
[4] سورہ بقرہ،156
[5] سورہ بقرہ،157

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
2 + 0 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 52