خلاصہ: اگر ہم واجبات کو انجام دینگے اور حرام کاموں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنگے، تو خدا ہم پر اپنے فضل کے ذریعہ برکتوں کو نازل فرمائے گا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اَللَّهُمَّ افْتَحْ لى فيهِ اَبْوابَ فَضْلِكَ وَ اَنْزِلَ عَلَىَّ فيهِ بَرَكاتِكَ وَ وَفِّقْنى فيهِ لِمُوجِباتِ مَرْضاتِكَ وَ اَسْكِنّى فيهِ بُحْبُوحاتِ جَنَّاتِكَ يا مُجيبَ دَعْوَةِ الْمُضْطَرّينَ.[۱]
خدایا اس دن میرے لۓ اپنے فضل کے دروازے کھول دے، اور مجھ پر اپنی برکتیں نازل فرما، اور مجھ کو اس میں توفیق دے اپنی مرضی کے اسباب کی, اور جنت کے بیچ میں میرا مسکن قرار دے، اے پریشان لوگوں کی دعاؤں کے قبول کرنے والے۔
خداوند متعال کے بہت زیادہ اسماء اور صفات ہے، جن میں سے ایک یہ ہے کہ خدا عادل ہے یعنی وہ اپنے دقیق معیار کے اعتبار سے حساب و کتاب کرتا ہے، اسی معیار پر معاف کرتا ہے اور بخشتا ہے اور اسی معیار پر سزا اور عذاب دیتا ہے، عدل کے مقابلہ میں خدا کی ایک اور صفت فضل ہے جو عدل پر بخشش کے لحاظ سے برتری رکھتی ہے، جہاں تک ممکن ہے خدا اپنے بندوں پر فضل اور بخشش سے کام لیتا ہے کیونکہ وہ بندوں کو جھنم کی آگ سے نجات دلاتا چاہتا ہے، خداوند عالم نے قرآن مجید میں کئی دفعہ اسکی طرف اشارہ کیا ہے کہ میرا فضل تم لوگوں پر بہت زیادہ ہے مگر تم لوگ شکر کرنے والے نہیں ہو، جیسا کہ اس آیت میں بیان فرما رہا ہے: « إِنَّ اللّهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لاَ يَشْكُرُونَ[سورۂ بقرہ، آیت:۲۴۳] خدا لوگوں پر بہت فضل کرنے والا ہے لیکن اکثر لوگ شکریہ نہیں ادا کرتے ہیں»، اور دوسری جگہ ارشاد فرما رہا ہے: « فَلَوْلاَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لَكُنتُم مِّنَ الْخَاسِرِينَ[سورۂ بقرہ، آیت:۶۴] اگر فضل خدا اور رحمت الٰہی شامل حال نہ ہوتی تو تم خسارہ والوں میں سے ہوجاتے»، اگر بندوں پر خدا کا فضل نہ ہوتا تو وہ لوگ ہدایت کے قابل نہ ہوتے اور ہدایت کے قابل نہ ہوتے تو شیطان کی پیروی کرتے اور اگر شیطان کی پیروی کرتے تو یقینا نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوتے۔
اسی لئے ہم آج کے دن خداوند عالم سے دعاگو ہیں کہ: « اَللَّهُمَّ افْتَحْ لى فيهِ اَبْوابَ فَضْلِكَ ؛ خدایا اس دن میرے لۓ اپنے فضل کے دروازے کھول دے»۔
جب خدا اپنے فضل کے دروزے کھول دیتا ہے اسی وقت اس کے بندوں پر برکتیں نازل ہوتی ہیں، برکت کے نازل ہونے کا ایک سبب، تقوی کا اختیار کرنا ہے، جس کے بارے میں امام رضا(علیہ السلام)، رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کر رہے ہیں: « لَا تَزَالُ أُمَّتِي بِخَيْرٍ مَا تَحَابُّوا وَ تَهَادَوْا وَ أَدَّوُا الْأَمَانَةَ وَ اجْتَنَبُوا الْحَرَامَ وَ قَرَوُا الضَّيْفَ وَ أَقامُوا الصَّلاةَ وَ آتَوُا الزَّكاةَ فَإِذَا لَمْ يَفْعَلُوا ذَلِكَ ابْتُلُوا بِالْقَحْطِ وَ السِّنِين[۲] جب تک میری امت کے افراد ایک دوسرے سے محبت کے ساتھ پیش آئینگے اور ایک دوسرے کو ہدیہ دینگے اور امانت کو ادا کرینگے اور حرام کاموں سے اپنے آپ کو بچا کر رکھینگے اور مہمان کا احترام کرینگے اور نماز کو قائم کرینگے اور زکات کو دینگے، خیر اور برکت ان کے شامل حال رہےگی اور جب ان کاموں کو انجام نہیں دینگے تو قحطی اور خشک سالی میں مبتلا ہوجائےگے»، دوسری حدیث میں امام رضا(علیہ السلام) فرما رہے ہیں: « لَا تَسْتَقِلُّوا قَلِيلَ الرِّزْقِ فَتُحْرَمُوا كَثِيرَه[۳] تھوڑے رزق کو کم مت سمجھو کیونکہ تمھارے اس کام کی وجہ سے تم بہت زیادہ نعمتوں سے محروم ہو جاؤگے».
اسی لئے ہم آج کے دن خدا سے دعا مانگ رہے ہیں: « وَ اَنْزِلَ عَلَىَّ فيهِ بَرَكاتِكَ؛ اور مجھ پر اپنی برکتیں نازل فرما»۔
خدا کی مرضی اس میں ہے کہ مؤمن خدا کے بتائے ہوئے احکام پر عمل کرے، جن واجبات کو انجام دینے کا حکم دیا گیا ہے انہیں بجالائے اور جن محرمات سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے ان کو انجام نہ دے، یہ وہ اسباب ہیں جن کی بنا پر خدا کی مرضی حاصل ہوتی ہے، خود خداوند عالم ارشاد فرما رہا ہے: « وَأَطِيعُواْ اللّهَ وَالرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ[سورۂ آل عمران، آیت:۱۳۲] اور اللہ و رسول کی اطاعت کرو شاید رحم کے قابل ہوجاؤ»، اگر انسان خدا کی عائد کردہ واجب چیزوں پر عمل کرے اور حرام کاموں سے اپنے آپ کو محفوظ کرلے تو یقینا یہ کام، خدا کی رضایت حاصل کرنے کا سبب بنتا ہے، یہاں تک کہ خدا ان سے راضی ہوجاتاہے: « رَّضِيَ اللّهُ عَنْهُمْ وَرَضُواْ عَنْهُ ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ[سورۂ مائدہ، آیت:۱۱۹] خدا ان سے راضی ہوگا اور وہ خدا سے اور یہی ایک عظیم کامیابی ہے»، خدا جس سے راضی ہوتا ہے وہ جنت میں جانے کے لئے مشتاق ہوتا اور جو شخص جنت میں جانے کا مشتاق ہوتا ہے وہ اپنی موت کی تمنی کرتا ہے جیسا کہ امیرالمؤمنین علی(علیہ السلام) ارشاد فرما رہے ہیں: « شَوَّقوا اَنفُسَکُم الی نَعیم الجَنَّه تُحبُّوا المَوتَ وَ تَمقُتُوا الحَیات[۴]اپنے آپ کو جنت کی نعمتوں کا مشتاق بناؤ، یہاں تک کہ موت سے محبت کرو اور زندگی کو اپنا دشمن جانو».
اسی لئے آج کے دن ہم خدا سے دعا مانگ رہے ہیں: « وَ وَفِّقْنى فيهِ لِمُوجِباتِ مَرْضاتِكَ وَ اَسْكِنّى فيهِ بُحْبُوحاتِ جَنَّاتِكَ يا مُجيبَ دَعْوَةِ الْمُضْطَرّينَ؛ اور مجھ کو اس میں توفیق دے اپنی مرضی کے اسباب کی اور جنت کے بیچ میں میرا مسکن قرار دے، اے پریشان لوگوں کی دعاؤں کے قبول کرنے والے»۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے:
[۱]۔ ابراہیم ابن علی عاملی الکفعمی، المصباح للکفعمی، دار الرضی(زاھدی)، ۱۴۰۵ق، ص۶۱۵۔
[۲]۔ محمد باقر مجلسى، بحار الأنوارالجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار، دار إحياء التراث العربي،۱۴۰۳ ق، ج۷۱، ص۳۹۲.
[۳]۔ بحار الأنوار, ج۷۵، ص۳۴۷.
[۴]۔ عبد الواحد بن محمد تميمى آمدى، غرر الحكم و درر الكلم، دار الكتاب الإسلامي، ۱۴۱۰ ق، ص۴۱۴.
Add new comment