خلاصہ: ماہ مبارک رمضان کے روز و شب میں عبادتوں کی وجہ سے انسان کا دل نورانی ہوجاتا ہے اور جب انسان کا دل نورانی ہوجاتا ہے تا وہ اپنے اعضاء و جوارح سے جو بھی کام کرتا ہے وہ صرف اور صرف خدا کی خشنودی کے لئے ہوتا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اَللَّهُمَّ نَبِّهْنى فيهِ لِبَرَكاتِ اَسْحارِه وَ نَوِّرْ فيهِ قَلْبى بِضِيآءِ اَنْوارِه وَ خُذْ بِكُلِّ اَعْضآئى اِلَى اتِّباعِ اثارِه بِنُورِكَ يا مُنَوِّرَ قُلُوبِ الْعارِفينَ.
خدایا مجھ کو اس میں بیدار رکھ اس کی سحر کی برکتوں کے لۓ، اور اس میں میرے دل کو نورانی کر اس کے نور سے، اور میرے تمام اعضاء و جوارح کو اس کے آثار و برکات کے لۓ مسخر کر اپنے نور کے ذریعہ اے معرفت والوں کے دلوں کو روشن کرنے والے۔
سحر کے وقت جب غافلوں کی آنکھیں نیند میں ہوتی ہیں اور ماحول ہرلحاظ سے پُرسکون ہوتا ہے، مادی زندگی کا شور وغل خاموش ہوتا ہے اور وہ عوامل جو انسان کی فکر کو اپنی طرف مشغول رکھتے ہیں، سب خاموش رہتے ہیں، بعض لوگ بارگاہِ خداوندی میں اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور خدا کے حضور میں راز و نیاز اور باتیں کرتے ہیں، نماز پڑھتے ہیں اور خصوصیت کے ساتھ اپنے گناہوں سے استغفار کرتے ہیں، جس کے بارے میں امام صادق(علیہ السلام) فرما رہے ہیں: « كَانُوا يَسْتَغْفِرُونَ فِي الْوَتْرِ فِي آخِرِ اللَّيْلِ سَبْعِينَ مَرَّة[۲] وہ لوگ سحر کے وقت نماز وتر میں ستر مرتبہ خدا سے طلبِ مغفرت کرتے ہیں»۔
خداوند عالم سے دعا ہے کہ ماہ مبارک رمضان کی راتوں میں ہمیں استغفار کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اسی لئے ہم آج کے دن دعا کر رہے ہیں: «اَللَّهُمَّ نَبِّهْنى فيهِ لِبَرَكاتِ اَسْحارِه؛ خدایا مجھ کو اس میں بیدار رکھ اس کی سحر کی برکتوں کے لۓ»۔
ماہ مبارک رمضان کی راتیں بہت بافضیلت راتیں ہیں، خصوصا ان لوگوں کے لئے جو ان راتوں میں اپنے آپ کو خدا کی بندگی میں مصروف رکھتے ہیں، راتوں میں بیدار رہ کر خدا کی بارگاہ میں گریہ و زاری اور مناجات میں مشغول رھتے ہیں، خداوند عالم ان لوگوں کے دلوں کو نور سے منور کرتا ہے، جس کی وجہ سے ان کے اندر ایک ایسی نورانیت پیدا ہوجاتی ہے جس کے سبب یہ لوگ ظلمت کی تاریکی سے نکل کر ہدایت کے اعلی مراحل کو طے کرتے ہیں، جیسا کہ خداوند عالم اردشاد فرما رہا ہے: «اَلهُ وَلىُّ الَّذینَ ءامَنُوا یُخرِجُهُم مِنَ الظُّلُماتِ اِلَى النُّور[سورہ بقرہ، آیت:۲۵۷] اللہ صاحبانِ ایمان کا ولی ہے وہ انہیں تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آتا ہے»، جو لوگ تاریکیوں سے نکل کر روشنی کی طرف آتے ہیں وہ لوگ سوائے حقیقت کہ نہ کچھ دیکھتے ہیں اور نہ ہی قبول کرتے ہیں، جب یہ لوگ سوائے حقیقت کے کچھ بھی نہیں دیکھتے تب خداوند عالم اپنے رحمت کا دروازہ ان لوگوں کے لئے کھول دیتا ہے، جب خدا کی رحمت کسی بندہ کے شامل حال ہوجاتی ہے تو وہ جو بھی کام انجام دیتا ہے وہ صرف اور صرف خدا کی رضا کو حاصل کرنے کے لئے ہوتا ہے کیونکہ جب کسی کے اوپر نور کی بارش ہوتی ہے تو اسکی نظر میں صرف اور صرف خدا ہی ہوتا ہے کیونکہ: «اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَ الْأَرْضِ[سورہ نور، آیت:۳۵] اللہُ آسمانوں اور زمین کا نور ہے»، اسی لئے آج کے دن ہم خداوند متعال سے دعا کر رہے ہیں: «وَ نَوِّرْ فيهِ قَلْبى بِضِيآءِ اَنْوارِه؛ اور اس میں میرے دل کو نورانی کر»۔
خداوند متعال نے اپنے خاص لطف و کرم، رحمت و محبت اور عنایت کی بناء پر انسان کو ایسی نعمتوں سے نوازا ہے جن سے اس کائنات میں دوسری مخلوقات یہاں تک کہ مقرب فرشتوں کو بھی نہیں نوازا، انسان کے لئے خداوند عالم کی نعمتیں اس طرح موجود ہیں کہ اگر انسان ان کو حکم خدا کے مطابق استعمال کرے تو اس کے جسم اور روح میں رشد و نمو پیدا ہوتا ہے اور دنیاوی اور اُخروی زندگی کی سعادت و کامیابی حاصل ہوتی ہے، جس کے بارے میں رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اس طرح فرمارہے ہیں: «أَفْضَلُ النَّاسِ مَنْ عَشِقَ الْعِبَادَةَ فَعَانَقَهَا وَ أَحَبَّهَا بِقَلْبِهِ وَ بَاشَرَهَا بِجَسَدِهِ وَ تَفَرَّغَ لَهَا فَهُوَ لَا يُبَالِي عَلَى مَا أَصْبَحَ مِنَ الدُّنْيَا عَلَى عُسْرٍ أَمْ عَلَى يُسْرٍ[۳] لوگوں میں سب سے افضل شخص وہ ہے جس نے عبادت سے عشق کر تے ہوئے اسے گلے لگایا، اس کو اپنے دل سے چاہا اور اپنے اعضاء و جوارح کے ذریعہ اس سے وابستہ رہے، اس کو پرواہ نہیں رہتی کہ اس کا اگلا دن خوشی سے گزرے گا یا غم کے ساتھ گذرے گا».
اسی لئے آج کے دن ہم خدا سے دعا مانگ رہے ہیں: «وَ خُذْ بِكُلِّ اَعْضآئى اِلَى اتِّباعِ اثارِه بِنُورِكَ يا مُنَوِّرَ قُلُوبِ الْعارِفينَ؛ اور میرے تمام اعضاء و جوارح کو اس کے آثار و برکات کے لۓ مسخر کر اپنے نور کے ذریعہ اے معرفت والوں کے دلوں کو روشن کرنے والے»۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے:
[۱]۔ ابراہیم ابن علی عاملی الکفعمی، المصباح للکفعمی، دار الرضی(زاھدی)، ۱۴۰۵ق، ص۶۱۵۔
[۲]۔محمد باقر مجلسى، بحار الأنوارالجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار، دار إحياء التراث العربي، ۱۴۰۳ ق، ج۶۷، ص۲۷۹.
[۳]۔ محمد بن يعقوب كلينى، الكافي، دار الكتب الإسلامية،۱۴۰۷ ق، ج۲، ص۸۳.
Add new comment