خلاصہ: اگر ہم واجبات کو انجام دینگے تو جنت کے دروزے ہمارے لئے کھولے جائینگے اور اگر حرام کاموں کےمرتکب ہوئے تو جھنم کے دروازے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اَللَّهُمَّ افْتَحْ لى فيهِ اَبْوابَ الْجِنانِ وَ اَغْلِقْ عَنّى فيهِ اَبْوابَ النّيرانِ وَ وَفِّقْنى فيهِ لِتِلاوَةِ الْقُرْانِ يا مُنْزِلَ الْسَّكينَة فى قُلُوبِ الْمُؤْمِنينَ.[۱]
خدایا میرے لئے اس دن میں جنت کے دروازوں کو کھول دے، اور میرے اوپر بند کردے جہنم کے دروازوں کو، اور مجھ کو اس میں قرآن مجید کی تلاوت کی توفیق دے، اے مومنوں کے دلوں میں سکون کے نازل کرنے والے۔
ماہ مبارک رمضان میں باقی مہینوں کی بنسبت اﷲ تعالیٰ کا فضل و کرم اور خیرات و برکات کثرت سے تقسیم ہوتی ہیں، جنت کے دروازوں کو کھول دیا جاتا ہے اور جہنم کے دروازں کو بند کردیا جاتا ہے۔
جنت کے دروازوں کو کھول دیئے جانے کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے اپنی تمام عمر میں جو گناہ انجام دئے ہیں، ان سب سے اپنے آپ کو پاک کرلیں اور نیک اور صالح اعمال کو بجالائیں کیونکہ انسان جب تک گناہ کو انجام دیتا ہے اس وقت تک وہ جنت میں داخل نہیں ہوسکتا، جنت کے دروزے اسکے لئے بند ہوتے ہیں، جنت کے دروازے اسکے لئے اس وقت کھولے جاتے ہیں جب اسکے نامہ عمل میں ایک بھی گناہ لکھا ہوا نہ ہو، جس کے بارے میں حضرت علی(علیہ السلام) فرما رہے ہیں: « الْفَرَائِضَ الْفَرَائِضَ أَدُّوهَا إِلَى اللَّهِ تُؤَدِّكُمْ إِلَى الْجَنَّة[۲] واجبات، واجبات! ان کو اللہ کے لئے بجالاؤ تاکہ تمہیں جنت کی طرف لیکر جائیں»، اگر واجبات کو اللہ کے لئے بجالایا جائے تو اس وقت خداوند عالم ان کو قبول کرتا ہے، اور جب خدا قبول کرتا ہے تو اس وقت اسکے لئےجنت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں، اسی لئے ہم خدا سے دعا مانگ رہے ہیں: « َللَّهُمَّ افْتَحْ لى فيهِ اَبْوابَ الْجِنانِ؛ خدایا میرے لئے اس دن میں جنت کے دروازوں کو کھول دے»۔
جھنم کے دروازوں کو بند کردیا جاتا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے آپ کو گناہوں سے محفوظ رکھیں، جس کی جانب خداوند عالم اشارہ فرما رہا ہے: « أَلَمْ یعْلَمُوا أَنَّهُ مَنْ یحَادِدْ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَأَنَّ لَهُ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدًا[سورۂ توبہ، آیت:۶۳] کیا یہ نہیں جانتے ہیں کہ جو خدا و رسول سے مخالفت کرے گا اس کے لئے آتش جہنمّ ہے»، اس آیت کے ذریعہ یہ سمجھ میں آرہا ہے کہ جھنم کے دروازے ان لوگوں پر بند کئے جاتے ہیں جو خداوند عالم کی اطاعت کرتے ہیں، کیونکہ جھنم کی آگ ان لوگوں کے لئے ہے جو خدا کی نافرمانی کرتے ہیں، جس کے بارے میں حضرت علی(علیہ السلام) ارشاد فرما رہے ہیں: « فَإِنَ الدُّنْيَا قَدْ أَدْبَرَتْ وَ آذَنَتْ بِوَادِعٍ وَ إِنَّ الْآخِرَةَ قَدْ أَقْبَلَتْ وَ أَشْرَفَتْ بِاطِّلَاعٍ أَلَا وَ إِنَّ الْيَوْمَ الْمِضْمَارَ وَ غَداً السِّبِاقَ وَ السُّبْقَةَ الْجَنَّةُ وَ الْغَايَةَ النَّارُ أَ فَلَا تَائِبٌ مِنْ خَطِيئَتِهِ قَبْلَ مَنِيَّتِهِ أَ لَا عَامِلٌ لِنَفْسِهِ قَبْلَ يَوْمِ بُؤْسِهِ أَلَا وَ إِنَّكُمْ فِي أَيَّامِ أَمَلٍ مِنْ وَرَائِهِ أَجَلٌ فَمَنْ عَمِلَ فِي أَيَّامِ أَمَلِهِ قَبْلَ حُضُورِ أَجَلِهِ فَقَدْ نَفَعَهُ عَمَلُهُ وَ لَمْ يَضْرُرْهُ أَجَلُهُ وَ مَنْ قَصَّرَ فِي أَيَّامِ أَمَلِهِ قَبْلَ حُضُورِ أَجَلِهِ فَقَدْ خَسِرَ عَمَلُهُ وَ ضَرَّهُ أَجَلُهُ أَلَا فَاعْمَلُوا فِي الرَّغْبَةِ كَمَا تَعْمَلُونَ فِي الرَّهْبَةِ أَلَا وَ إِنِّي لَمْ أَرَ كَالْجَنَّةِ نَامَ طَالِبُهَا وَ لَا كَالنَّارِ نَامَ هَارِبُهَا[۳] یہ دنیا پیٹھ پھیر چکی ہے اور اس نے اپنے وداع کا اعلان کردیا ہے اور آخرت سامنے ہے اور اس کے آثار نمایاں ہوگئے ہیں۔ یاد رکھو کہ آج میدان عمل ہے اور کل مقابلہ ہوگا سبقت کرنے والے کا انعام جنت ہوگا اور برے عمل کا انجام جھنم ہوگا۔ کیا کوئی ایسا نہیں ہے جو موت سے پہلے خطاؤں سے توبہ کرلے اور سختی کے دن سے پہلے اپنے نفس کے لئے عمل کرلے۔ یاد رکھو کہ تم، آج امیدوں کے دنوں میں ہو جس کے پیچھے موت لگی ہوئی ہے، تو جس شخص نے امید کے دنوں میں موت آنے س پہلے عمل کرلیا اسے اس کا عمل یقینا فائدہ پہونچائے گا، اور موت کوئی نقصان نہیں پہونچائے گی لیکن جس نے موت سے پہلے امید کے دنوں میں عمل نہیں کیا، اس نے عمل کی منزل میں گھاٹا اٹھایا اور اس کی موت بھی نقصان دہ ہوگی۔ آگاہ ہوجاؤ! تم لوگ راحت کے حالات میں اسی طرح عمل کرو جس طرح خوف کے عالم میں کرتے ہو، کہ میں نے جنت جیسا کوئی مطلوب نہیں دیکھا ہے جس کے طلبگار سب سورہے ہیں اور جھنم جیسا کوئی خطرہ نہیں دیکھا ہے جس سے بھاگنے والے سب خواب غفلت میں پڑے ہوئے ہیں»۔ اگر ہم کو جہنم میں جانے سے اپنے آپ کو بچانا ہے تو ضروری ہے کے امام علی(علیہ السلام) کے اس ارشاد پر عمل کریں کیونکہ وقت تنگ ہے اور موت نزدیک ہے اور جھنم کے دروازے گنہگاروں کے لئے کھلے ہوئے ہیں اور اسکی آگ ان لوگوں کے لئے تیار ہے، اسی لئے ہم آج کے دن خدا سے دعا مانگ رہے ہیں: « وَ اَغْلِقْ عَنّى فيهِ اَبْوابَ النّيرانِ؛ اور میرے اوپر بند کر دے جہنم کے دروازوں کو»۔
قرآن کریم میں فکر اور تدبر کرنے کی فضیلت میں بہت سی احادیث موجود ہیں، قرآن ایسی کتاب ہے جسے خدا نے لوگوں کے لیے دنیا ہی میں ایک مکمل ضابطہ حیات بناکر بھیجا ہے، جس سے آخرت کی راہ میں نور اور روشنی حاصل کر سکتے ہیں، اور یہ کام اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک قرآن کے معانی میں تدبر اور فکر نہ کیا جائے، یہ ایسی حقیقت ہے جس کا فیصلہ عقل کرتی ہے۔ روایات اور احادیث میں جتنی تاکید ہے وہ اسی حکم عقل کی تائید اور اسی کی طرف راہنمائی ہے، جس کے بارے میں امام زین العابدین(علیہ السلام) فرما رہے ہیں: « آیٰاتُ الْقُرْآنِ خَزٰائِنٌ فَکُلَّمٰا فُتِحَتْ خَزینَةٌ ینَبْغَي لَکَ اَنْ تَنْظُرَ مٰا فِیھٰا[۴] قرآن کی آیات خزانے ہیں، جب بھی کوئی خزانہ کھولا جائے اس میں موجود موتیوں اور جواہرات کو ضرور دیکھا کرو»۔
اسی لئے خدا کی بارگاہ میں دعا ہے، ہم کو قرآن پڑھنے، پڑھ کر سمجھنے، اور سمجھ کر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے: « وَ وَفِّقْنى فيهِ لِتِلاوَةِ الْقُرْانِ يا مُنْزِلَ الْسَّكينَة فى قُلُوبِ الْمُؤْمِنينَ؛ اے مومنوں کے دلوں میں سکون کے نازل کرنے والے»۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حولے:
[۱]۔ ابراہیم ابن علی عاملی الکفعمی، المصباح للکفعمی، دار الرضی(زاھدی)، ۱۴۰۵ق، ص۶۱۵۔
[۲]۔ محمد باقر مجلسى، بحار الأنوارالجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار ، دار إحياء التراث العربي ، ۱۴۰۳ق، ج۲، ص۲۹۰.
[۳]۔بحار الأنوارالجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار،ج۷۴، ص۳۳۳.
[۴]۔محمد بن يعقوب كلينى، الكافي، دار الكتب الإسلامية، ۱۴۰۷ ق ،، ج۲، ص۶۰۹۔
Add new comment