خلاصہ: توبہ کا قبول ہونا رمضان کی برکتوں میں سے ایک برکت ہے، خدا کی مدد کے بغیر کوئی بھی نیک کام انجام نہین دیا سکتا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اَللَّهُمَّ وَفِّرْ فيهِ حَظّى مِنْ بَرَكاتِه وَ سَهِّلْ سَبيلى اِلَى خَيْراتِه وَ لاتَحْرِمْنى قَبُولَ حَسَناتِه يا هاِدياً اِلَى الْحَقِّ الْمُبينِ.[۱]
خدایا اس میں میرے لۓ اس کی برکات زیادہ کر، اور میرے لۓ راہ آسان کر اس کی نیکیوں کی طرف، اور مجھ کو محروم نہ کر اس کی نیکیوں کے قبول کرنے سے، اے دین حق کی جانب رہنمائی کرنے والے۔
ماہ مبارک رمضان برکتوں والا مہینہ ہے، اسکی برکتوں میں سے ایک برکت، توبہ کا قبول ہونا ہے کیونکہ اس مہینہ میں شیطان کو قید کرلیا جاتا ہے اس لئے اس مہینہ میں توبہ کا کرنا آسان ہوجاتا ہے، چونکہ دوسرےمہینوں میں شیطان ہمیں توبہ کرنے سے روکتا ہے لیکن اس مہینہ میں ہم شیطانی وسوسوں سے آزاد رہتے ہیں، لیکن توبہ، توبۂ نصوح ہونا چاہئے، جس کے بعد دوبارہ گناہ نہ کریں جس کے بارے میں خداوند عالم ارشاد فرما رہا ہے: « يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَّصُوحاً عَسَى رَبُّكُمْ أَن يُكَفِّرَ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَيُدْخِلَكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ[سورہ تحریم، آیت:۸] ایمان والو خلوص دل کے ساتھ توبہ کرو عنقریب تمہارا پروردگار تمہاری برائیوں کو مٹا دے گا اور تمہیں ان جنتوں میں داخل کردے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی»۔
کسی نے حضرت علی(علیہ السلام) کے سامنے ’’استغفر اللہ‘‘ کہا، آپ نے فرمایا تیری ماں تیرے ماتم میں روئے، تمہیں معلوم ہے کہ استغفار کیا ہے؟(اس کا استغفار زبان تک محدود تھا اور دل حقیقت توبہ سے نا آشنا تھا) فرمایا: استغفار بلند مقام افراد اور صدر نشین اشخاص کا مرتبہ ہے، استغفار میں چھ چیزوں کا ہونا ضروری ہے:
۱۔ گزشتہ بد کرداری سے پشیمانی اور شرمندگی۔
۲۔ ہمیشہ کے لئے گناہ ترک کرنے کا مصمم ارادہ۔
۳۔ لوگوں کے حقوق اس طرح ادا کریں کہ مرتے وقت کسی قسم کا حق اس کے ذمہ نہ ہو اور پاکیزہ حالت میں رحمت خدا سے پیوستہ ہوجائے۔
۴۔ ہر وہ واجب جسے انجام نہ دیا ہو اسکی بھرپائی کرے۔
۵۔ مال حرام سے بدن پر چڑھنے والے گوشت کو غم آخرت سے اس طرح پگھلائے کہ بدن کی کھال ہڈیوں سے متصل ہو جائے اور پھر حلال گوشت بدن میں پیدا ہو جائے۔
۶۔ اپنے جسم کو عبادت کی ورزش و عادت سے اس طرح مزہ چکھائے جس طرح عیش اور دن رات گناہ کی لذت سے مانوس کیا تھا۔
جب تم میں یہ چھ صفتیں پیدا ہوں اس وقت تم ’’استغفر اللہ‘‘ کا ورد پڑھنے کے اہل ہو۔[۲]
خدا ہمارا شمار حقیقی توبہ کرنے ولوں میں فرمائے تاکہ ماہ مبارک رمضان کی برکتوں سے مستفیض ہوسکیں، اسی لئے آج کے دن خدا کی بارگاہ میں دست بدعا ہیں: « اَللَّهُمَّ وَفِّرْ فيهِ حَظّى مِنْ بَرَكاتِه؛ خدایا اس میں میرے لۓ اس کی برکات زیادہ کر»۔
جب بھی انسان نیک کام کرنا چاہتا ہے، شیطان اسکو نیک کام کرنے سے روکتا ہے، اس لئے انسان کو چاہئے کہ نیک کام کرنے کے لئےخداوند متعال سے مدد مانگے تاکہ جو نیک کام کرنے کا اراداہ کیا ہے اسے انجام دے سکے کیونکہ اگر خدا اسکی مدد نہیں کریگا تو و کبھی بھی اس کام کو انجام نہیں دے سکتا، جیسا کے خود خداوند عالم ارشاد فرما رہا ہے: « إِن يَنصُرْكُمُ اللّهُ فَلاَ غَالِبَ لَكُمْ وَإِن يَخْذُلْكُمْ فَمَن ذَا الَّذِي يَنصُرُكُم مِّن بَعْدِهِ وَعَلَى اللّهِ فَلْيَتَوَكِّلِ الْمُؤْمِنُونَ[سورۂ آل عمران، آیت:۱۶۰] اللہ تمہاری مدد کرے گا تو کوئی تم پر غالب نہیں آسکتا اور وہ تمہیں چھوڑ دے گا تو اس کے بعد کون مدد کرے گا اور صاحبانِ ایمان تو اللہ ہی پر بھروسہ کرتے ہیں»،
آج کے دن خداوند عالم سے نیک کاموں کو انجام دینے کے لئے دعا مانگ رہے ہیں: « وَ سَهِّلْ سَبيلى اِلَى خَيْراتِه؛ اور میرے لۓ راہ آسان کر اس کی نیکیوں کی طرف»۔
ہم کو چاہئے کہ اس مہینہ اور اس کی پربرکت گھڑیوں کی قدر جانیں اور ان سے خوب فائدہ اٹھائیں اس لئے کہ نہیں معلوم کہ اگلے سال یہ موقع اور یہ بابرکت مہینہ ہمیں نصیب ہو یا نہ ہو، جس کے بارے میں امام صادق(علیہ السلام) فرما رہے ہیں: « قَالَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى يَا عِبَادِيَ الصِّدِّيقِينَ تَنَعَّمُوا بِعِبَادَتِي فِي الدُّنْيَا فَإِنَّكُمْ تَتَنَعَّمُونَ بِهَا فِي الْآخِرَةِ[۳] خداوند متعال فرماتا ہے: اے میرے سچے بندو! دنیا میں میری عبادت کی نعمت سے فائدہ اٹھاؤ تاکہ اس کے سبب آخرت کی نعمتوں کو پا سکو». یعنی اگر آخرت کی بے بہا نعمتوں کو حاصل کرنا چاہتے ہو تو پھر دنیا میں میری نعمتوں کو پہچانو، اس لئے کہ اگر تم دنیا میں میری نعمتوں کی قدر نہیں کرو گے تو میں تمہیں آخرت کی نعمتوں سے محروم کردونگا، اور اگر تم نے دنیا میں میری نعمتوں کی قدر کی تو پھر روز قیامت میں تمھارے لئے اپنی نعمتوں کی بارش کردوں گا.
اسی لئے خداوند متعال سے دعا ہے: « وَ لاتَحْرِمْنى قَبُولَ حَسَناتِه يا هاِدياً اِلَى الْحَقِّ الْمُبينِ؛ اور مجھ کو محروم نہ کر اس کی نیکیوں کے قبول کرنے سے ، اے دین حق کی جانب رہنمائی کرنے والے»۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے:
[۱]۔ ابراہیم ابن علی عاملی الکفعمی، المصباح للکفعمی، دار الرضی(زاھدی)، ۱۴۰۵ق، ص۶۱۵۔
[۲]۔ محمد بن يعقوب كلينى، الكافي (ط - الإسلامية)، دار الكتب الإسلامية، ۱۴۰۷ ق ، ج۲، ص۴۳۱.
[۳]۔ الکافی، ج۲، ص۸۳۔
Add new comment