گریہ کیوں؟

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: امام حسین(علیہ السلام) پر گریہ و زاری کرنے کی بہت زیادہ فضلت بیان کی گئی اور تأکید کی گئی ہے لیکن گریہ کیوں کیا جاتا ہے؟ اس طریقے کے بہت سے سوال کئے جاتے ہیں اسی کے جواب میں اس مضمون میں دو بزرگ علماء کے جواب کو پیش کیا جارہا ہے۔

گریہ کیوں؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم
     رونا، اس وقت آتا ہے جب انسان پر غم یا پریشانیاں آئیں اور اس کا دل ٹوٹا ہوا ہو یا بہت زیادہ خوشی کا موقع ہو۔ اولیائے الٰھی مختلف حالات میں گریہ و زاری کیا کرتے ہیں مخصوصاً سحر کے وقت، مناجات اور راز و نیاز کے وقت۔
     عام طور پر یہ سوال کیا جاتا ہے کہ امام حسین(علیہ السلام) جو تقریبا ۱۴۰۰ سال پہلے شہید ہوگئے ان پر رونے کا کیا فائدہ ہے؟۔ اس مضمون میں اسی سوال  کے جواب میں دو بزرگ علماء کے جواب کو رونے کے بارے میں بیان کیا جارہا ہے تاکہ ہم کچھ حد تک رونے کی حقیقت سے آشنا ہو سکیں:

آیت الله العظمی جوادی آملی (حفظه الله) فرماتے ہیں:
     امام حسین(علیہ السلام) کی مصیبت پر آنسو بہانا اپنے اندر بےشمار آثار اور برکات رکھتا ہے، جیسا کہ گریہ کے ذریعہ مؤمنین کے دلوں میں اھل بیت(علیہم السلام)  کی محبت اجاگر ہوتی ہے۔ جب محبت پیدا ہوتی ہے تو وہ مؤمن اماموں(علیہم السلام) کی بتائی ہوئی فکر اور ان کے راستے کو نہیں چھوڑتا، جب مؤمن کے دل میں امام حسین(علیہ السلام) کی محبت پیدا ہوجاتی ہے تو وہ سیدھے راستہ کی جانب چلنے لگتا ہے[۱]۔
     خود امام حسین(علیہ السلام) نے رونے کے بارے میں فرمایا ہے: اگر کوئی تلخ واقعہ پیش آجائے تو مجھ پر آنسو بہاؤ: «أَوْ سَمِعْتُمْ‏ بِغَرِيبٍ أَوْ شَهِيدٍ فَانْدُبُونِي‏[۲] جب بھی کسی غریب یا شھید کی داستان کو سنو تو میری مظلومیت پر گریہ کرو » کیونکہ اگر امام حسین(علیہ السلام) کو خلافت مل جاتی تو کوئی غریب اور شھید نہیں رہتا۔

آیت الله العظمی مکارم شیرازی(حفظه الله) فرماتے ہیں:
     قیام عاشورا کو باقی رکھنے کے لئے أئمہ اطھار(علیہم السلام) کی تدابیر میں سے ایک موثر تدبیر امام حسین(علیہ السلام) پر گریہ کرنا ہے، امام سجاد(علیہ السلام) اپنی امامت کے دوران ہمیشہ واقعہ عاشورا پر عزاداری کرتے رہے اور اس مصیبت پر آپ اتنا روئے کہ"بکّاٗئین عالم"(بہت گریہ کرنے والا)آپ کا لقب پڑ گیا[۳] ۔
     آپ فرماتے تھے: « إِنِّي‏ لَمْ‏ أَذْكُرْ مَصْرَعَ‏ بَنِي‏ فَاطِمَةَ إِلَّا خَنَقَتْنِي‏ الْعَبْرَة[۴])جب بھی مجھے اولاد فاطمہ(علیہا السلام) کی قتل گاہ یاد آتی ہے تو آنسو گلو گیر ہوجاتے ہیں»، ہر مناسبت پر امام(علیہ السلام) کا گریہ کرنا اس بات کا باعث بن گیا کہ عام لوگ بیدار ہوجائیں اور شہدائے عاشورا کو کوئی بھلا نہ سکے، امام صرف خود ہی سید الشہداء(علیہ السلام) پر گریہ نہیں کرتے تھے بلکہ ہمیشہ لوگوں کو بھی امام حسین(علیہ السلام) کے اوپر رونے کے لیے شوق و رغبت دلایا کرتے تھے۔
     ایک روایت میں امام رضا(علیہ السلام)نے بیان کیا ہے : « فَعَلَى‏ مِثْلِ‏ الْحُسَيْنِ‏ فَلْيَبْكِ‏ الْبَاكُونَ‏ فَإِنَ‏ الْبُكَاءَ عَلَيْهِ‏ يَحُطُّ الذُّنُوبَ‏ الْعِظَام‏[۵] امام حسین(علیہ السلام) جیسوں کے اوپر گریہ کرنے والوں کو گریہ کرنا چاہیے کیونکہ آپ پر گریہ کرنے سے بڑے گناہ معاف کردئے جاتے ہیں»۔
     شاعروں کو مرثیہ پڑھنے کی طرف رغبت دلانا
     جو شعراء امام حسین(علیہ السلام)کے مصائب پر شعر کہتے تھے اور مجالس میں اشعار کو پڑھتے تھے اور لوگوں کو رلاتے تھے ان شعراء پر ائمہ معصومین(علیہم السلام) کی خاص نظر رہتی تھی، بہت سے شعراء جیسے کمیت اسدی، دعبل خزاعی، سید حمیری و…کو شعراء اہل بیت(علیہم السلام) کہا جاتا تھا اور اس کی وجہ سے لوگوں کے درمیان ان کا ایک خاص مقام و رتبہ تھا۔
     ہارون مکفوف جو امام صادق(علیہ السلام) کے ایک صحابی تھے، کہتے ہیں:  میں ایک دن امام صادق(علیہ السلام) کی خدمت میں پہنچا  آپ نے فرمایا: مجھے مرثیہ سناو، میں نے امام (علیہ السلام) کو مرثیہ سنانا شروع کیا جب میں مرثیہ پڑھ رہا تھا تو میں نے دیکھا کہ امام صادق(علیہ السلام) گریہ کررہے ہیں اور عورتیں فریاد کررہی ہیں جب سب خاموش ہوگئے تو حضرت نے فرمایا: « يَا أَبَا هَارُونَ‏- مَنْ‏ أَنْشَدَ فِي‏ الْحُسَيْنِ شِعْراً فَبَكَى وَ أَبْكَى عَشَرَةً كُتِبَتْ لَهُمُ الْجَنَّة[۶] ایے ابو ہارون! جو بھی امام حسین(علیہ السلام) پر مرثیہ پڑھے اور دس لوگوں کو رلایے اس کی جزاء بہشت ہے» ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے:
[۱]۔ جوادی آملی، شکوفایی عقل در پرتو نهضت حسینی، مرکز نشر اسرا،ص۲۳۴، ۱۳۸۷۔
[۲۔ حسين نورى، مستدرك الوسائل و مستنبط المسائل،مؤسسة آل البيت عليهم السلام - قم،ج ۱۷۔ ص۲۶، ۱۴۰۸ق.
[۳]. نعمت الله جزائرى، فاطمه، قصص الأنبياء ( قصص قرآن - ترجمه قصص الأنبياء جزائرى)، انتشارات فرحان - تهران، ص۲۷۵، 1381 ش.
[۴]. محمد باقر مجلسى، بحار الأنوارالجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار، دار إحياء التراث العربي، ج۴۶، ص۱۰۸،۱۴۰۲ ق.
[۵]. بحارالانوار، ج۴۴۔ ص۲۸۴۔
[۶]. بحارالانوار، ج۱۴، ص۵۹۵.
http://www.ashoora.ir/2012-11-16-16-24-34/%D9%81%D9%84%D8%B3%D9%81%D9%87-%DA%AF%D8%B1%DB%8C%D8%B3%D8%AA%D9%86/3670
http://makarem.ir/main.aspx?lid=0&mid=246448&typeinfo=25&catid=23265

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
20 + 0 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 49