چکیده:رونا ایک ایسی حقیقت ھے کہ جس سے انبیائے الٰھی، ائمہ معصومین علیھم السلام اور اولیائے الٰھی مختلف حالات میں سرو کار رکھتے تھے مخصوصاً سحر کے وقت، مناجات اور راز و نیاز کے وقت۔
رونے کی حقیقت
رونا ، اس حالت کو کھا جاتا ھے کہ جب انسان پر غم یا پریشانیاں آئیں اور اس کا دل ٹوٹا هوا هو یا بہت زیادہ خوشی کا موقع هو۔
رونا ایک ایسی حقیقت ھے کہ جس سے انبیائے الٰھی، ائمہ معصومین علیھم السلام اور اولیائے الٰھی مختلف حالات میں سرو کار رکھتے تھے مخصوصاً سحر کے وقت، مناجات اور راز و نیاز کے وقت۔
رونا، خدا کے خاص عابدوں کے مکتب میں بہت سی باطنی دردوں کی دوا ھے جیسے محبوب کا فراق اور اس کی دوری، اور اپنے غمزدہ دل کو آرام و سکون دیتا ھے۔
آج ”علاجی رونا“ مغربی ممالک میں ڈاکٹری کے ایک شعبہ کے عنوان سے جانا جاتا ھے اور بعض ڈاکٹر اپنے بیماروں کو تاکید کرتے ھیں اپنے علاج کے لئے جتنا ممکن هوسکے روئیں اور آنسوں بھائیں۔
رونا، مومن کی علامت
قرآن مجید، سورہ مائدہ میں رونے کو حقیقی مومن کی نشانی کے عنوان سے یاد کرتا ھے، ارشاد هوتا ھے:
<وَإِذَا سَمِعُوا مَا اٴُنزِلَ إِلَی الرَّسُولِ تَرَی اٴَعْیُنَہُمْ تَفِیضُ مِنْ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوا مِنْ الْحَقِّ...>[1]
”اور جب اس کلام کو سنتے ھیں جو رسول پر نازل هوا ھے تو تم دیکھتے هو کہ ان کی آنکھوں سے بیساختہ آنسو جاری هوجاتے ھیں کہ انھوں نے حق کو پہچان لیا ھے“۔
اھل بیت علیھم السلام کے سلسلہ میں نصف شب اور سحر کے وقت خوف خدا سے رونے کے سلسلہ میں بہت سی روایات بیان هوئی ھیں کہ اگر ان سب کو ایک جگہ جمع کردیا جائے اور ان کی تفسیر و تشریح نہ (بھی) کی جائے توبھی ایک مستقل اھم کتاب بن جائے گی۔
حضرت امیر الموٴمنین علیہ السلام دعائے کمیل میں ارشاد فرماتے ھیں:
”خداوندا! آئندہ آنے والے کن کن مصائب پر گریہ کروں“؟
نیز اسی دعا کا ایک دوسرے فقرے میں ارشاد فرماتے ھیں:
”لِاٴَلِیمِ الْعَذابِ وَشِدَّتِہِ، اٴَمْ لِطُولِ الْبَلَاءِ وَمُدَّتِہِ“۔
”دردناک عذاب اور اس کی سختی پر، یا بلاؤں کے طولانی هونے اور اس کی مدت پر“؟
حضرت امام سجاد علیہ السلام دعائے ابوحمزہ ثمالی میں خداوندعالم کی بارگاہ میں عرض کرتے ھیں:
”فَمالِي لَاٰ اٴَبْکِي، اٴَبْکِي لِخُرُوجِ نَفْسِي، اٴَبْکِي لِظُلْمَةِ قَبْرِي، اٴَبْکِي لِضِیقِ لَحْدِي، اٴَبْکِي لِسُوٴالِ مُنْکَرٍ وَنَکِیرٍ اِٴیَّايَ، اٴَبْکِي لِخُرُوجِي مِنْ قَبْرِي عُرْیاناً ذَلِیلاً، حامِلاً ثِقْلِي عَلَیٰ ظَھْرِي“!!.
”میں کیسے نہ رووٴں ؟ میں جاکنی کا تصور کر کے رورھا هوں ۔میں قبر کی تاریکی اور لحد کی تنگی کے لئے رورھاهوں، میں منکر ونکیر کے سوال کے لئے رورھاهوں، میں اپنی قبر سے برھنہ، ذلیل اور گناهوں کا بوجھ لادھ کے نکلنے کے تصور سے رو رھاهوں “۔
اس بنا پر رونا، خداوندعالم، انبیائے الٰھی اور ائمہ معصومین علیھم السلام کا مطلوب ھے، لیکن اس کو ایسی جگہ پر انجام دینا چاہئے جس مقام پر خداوندعالم، انبیائے الٰھی اور ائمہ معصومین علیھم السلام نے انسان سے چاھا ھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] سورہٴ مائدہ (۵)، آیت۸۳.
Add new comment