اہلبیت علیہھم السلام کے مصائب پر گریہ و زاری

Sun, 04/16/2017 - 11:11

چکیده:جن مقامات پر رونے پر تاکید کی گئی وہ حضرت امام حسین علیہ السلام کے مصائب پر رونا ھے، جو ایک عظیم عبادت ھے جس کا ثواب بھی عظیم اور روحانی دردوں کی دوا ھے اور انسان کو توبہ و مغفرت کے لئے تیار کرتا ھے نیز خداوندعالم کی رحمت واسعہ تک پھنچنے کا وسیلہ ھے۔

اہلبیت علیہھم السلام کے مصائب پر گریہ و زاری

جن مقامات پر رونے پر تاکید کی گئی وہ حضرت امام حسین علیہ السلام کے مصائب پر رونا ھے، جو ایک عظیم عبادت ھے جس کا ثواب بھی عظیم اور روحانی دردوں کی دوا ھے اور انسان کو توبہ و مغفرت کے لئے تیار کرتا ھے نیز خداوندعالم کی رحمت واسعہ تک پھنچنے کا وسیلہ ھے۔
اھل بیت علیھم السلام کے مصائب پر رونے کے سلسلہ میں اتنی زیادہ روایات ھیں کہ اب تک ”بکاء الحسین“ کے عنوان سے چند کتابیں چھپ چکی ھیں۔
اھل بیت علیھم السلام کے مصائب پر رونے کی مخالفت بعض جاھل و نادان گروہ اور بعض اوقات روشن فکرنما لوگوں کی طرف سے هوتی ھے جو حقیقت میں قرآن کریم، سنت پیامبر (ص) اور اولیائے الٰھی کی روش کے برخلاف ھے، لیکن شیعوں کو اس جاھلانہ مخالفت پر توجہ نھیں کرنی چاہئے اور اھل بیت علیھم السلام پر رونے کو ھاتھ سے نھیں دینا چاہئے جو ایک طرح سے ظالموں اور ستمگروں کے خلاف مقابلہ ھے ، بلکہ نسل در نسل اس الٰھی عمل اور عظیم ثواب والے کام کی طرف رغبت کرنی چاہئے اور اس کو گرانقدر میراث کے عنوان سے اپنے وارثوں کے لئے چھوڑیں۔
حضرت امام رضا علیہ السلام ایک اھم روایت کے ضمن میں فرماتے ھیں:
”مَنْ تَذَکَّرَ مُصَابِنَا وَبَکیٰ لِمَااُرْتُکِبَ مِنَّا، کاَنَ مَعَنَا فِی دَرَجَاتِنَا یَوْمَ الْقِیَامَةِ. وَمَنْ ذُکِّرَ بِمُصَابِنَا فَبَکیٰ وَاَبْکٰی لَمْ تَبْکِ عَیْنُہُ یَوْمَ تَبْکِی الْعُیُونُ“۔[1]
”جو شخص ھم پر پڑنے والے مصائب کو یاد کرے اور دشمنوں کی طرف سے ھم پر هونے والے مظالم کو یاد کرکے روئے تو روز قیامت وہ ھمارے درجہ میں ھمارے ساتھ ھے اور جو شخص ھمارے مصائب پر روئے اور دوسروں کو رُلائے تو جس روز تمام آنکھیں روتی هوئی نظر آئیں گی اس کی آنکھ نھیں روئے گی“۔
حضرت امام صادق علیہ السلام نے مسمع سے فرمایا: تم عراق کے رھنے والے هو کیا زیارت کے لئے نھیں جاتے؟ مسمع نے کھا: بصرہ میں ناصبی اور دشمن زیادہ ھیں، میں ڈرتا هوں کہ میری زیارت کی خبر حکومت تک نہ پہچادیں اور مجھے آزار و تکلیف پھنچائیں، امام علیہ السلام نے فرمایا:
”اٴَفَمَا تَذْکُرُ مَا صُنِعَ بِہِ؟“۔
”کیا حضرت امام حسین علیہ السلام پر پڑنے والے مصائب کو یاد کرتے هو“؟
میں نے کھا: جی ھاں، امام علیہ السلام نے سوال کیا: کیا آہ و نالہ اور بے تاب اور غمگین هوتے هو؟میں نے کھا: جی ھاں، خدا کی قسم اتنا روتا هوں کہ روتے روتے ہچکیاں لگ جاتی ھیں یھاں تک کہ میرے اھل خانہ بھی اس کے آثار کا مشاہدہ کرتے ھیں، اور اس موقع پر کوئی چیز کھا بھی نھیں سکتا هوں اور غم و اندوہ کے آثار میرے چھرے پر ظاھر هوتے ھیں، امام علیہ السلام نے فرمایا:
”رَحِمَ اللّٰہُ دَمْعَتَکَ“۔
”خداوندعالم تمھارے رونے پر رحمت نازل کرے“۔
واقعاً تمھارا شمار ان لوگوں میں سے هوتا ھے جو ھمارے مصائب پر آہ و نالہ کرتے ھیں اور ھماری خوشی میں خوش هوتے ھیں اور ھمارے غم میں غمگین هوتے هو، بے شک کہ تم مرتے وقت ھمارے آباء و اجداد (علیھم السلام) کو اپنے پاس حاضر دیکھو گے اور وہ تمھارے بارے میں ملک الموت سے سفارش کریں گے اور تمھیں ایسی بشارت دیں گے کہ مرنے سے پھلے تمھارے آنکھیں منور هوجائیں گی اور ملک الموت تم پر بچہ کی نسبت ماں سے بھی زیادہ مھربان هوجائے گا۔[2]
حضرت امیر الموٴمنین علی علیہ السلام نے حضرت امام حسین علیہ السلام کی طرف دیکھا اور فرمایا:
”یَا عِبْرَةَ کُلِّ مُوٴمِنْ! فَقَالَ: اٴَنَا یَا اٴَبَتَاْہ؟ فَقَالَ: نَعَمْ یَابُنَیَّ“۔[3]
”اے مومنوں کے گریے! فرمایا: کیا میں هوں اے پدر؟ فرمایا: ھاں میرے بیٹے“۔
حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:
”مَنْ ذَکَرَنَا اٴَوْ ذُکِرْنَا عِنْدَہُ فَخَرَجَ منْ عَیْنِہِ دَمْعٌ مِثْلُ جُنَاحِ بَعُوْضَةٍ، غَفَرَ اللّٰہُ لَہُ ذُنُوْبَہُ، وَلَوْ کَانَتْ مِثْلَ زَبَدِ الْبَحْرِ“۔[4]
”جو شخص ھمیں یاد کرے، یا اس کے سامنے ھمیں یاد کیا جائے اور اس کی آنکھوں سے مکھی کے پر کی برابر اشک آجائے خداوندعالم اس کے گناهوں کو بخش دیتا ھے چاھے کف دریا کے برابر ھی کیوں نہ هوں“!
نیز امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:
نَفَسٌ الْمَھْمُوْمِ لِظُلْمِنَا تَسْبِیْحٌ، وَھَمُّہُ لَنَا عِبَادَةٌ، وَکِتْمَانُ سِرِّنَا جِھَادٌ فی سَبِیلِ اللّٰہِ. ثُمَّ قَالَ اٴَبُو عَبْدِ اللّٰہِ: یَجِبُ اٴَنْ یَکْتُبَ ھَذَا الْحَدِیْث بِالذَھَبِ“۔[5]
”ھمارے مصائب پر غمگین هونے والے شخص کا سانس تسبیح ھے، اور ھمارے مصائب پر غم و غصہ عبادت ھے، اور ھمارے اسرار کو مخفی کرنا جھاد فی سبیل الله ھے، اس کے بعد امام علیہ السلام نے فرمایا: اس حدیث کو سونے سے لکھنا چاہئے“۔
ابن خارجہ کہتے ھیںکہ: ھم حضرت امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر تھے اور حضرت امام حسین علیہ السلام کی یاد کی اور آپ کے قاتلوں پر لعنت بھیجی۔
”فَبَکَی اٴبُو عَبْدِ اللّٰہ علیہ السلام وَبَکِینَا قَالَ: ثُمَّ رَفَعَ رَاٴسَہُ فَقَالَ: قَالَ الحُسَیْنُ بنُ عَليٍ علیہ السلام: اٴنَا قَتِیلُ العَبْرَةِ لاَ یَذْکُرُنِي مُوٴمِنٌ اِلاَّ بَکَي“۔[6]
”اس موقع پر حضرت امام صادق علیہ السلام نے رونا شروع کیا اور ھم بھی رونے لگے، اس کے بعد امام صادق علیہ السلام سے اپنا سر اٹھایا اور فرمایا: حسین بن علی (علیھم السلام) نے فرمایا: میں کشتہٴ اشک هوں، کوئی بھی مومن مجھے یاد نھیں کرے گا مگر یہ کہ آنسو بھائے“۔
حضرت امام حسین علیہ السلام سے روایت ھے کہ:
”مَامِنْ عَبْدٍ قَطَرَتْ عَیْنَاہُ فَیِْنَا قَطْرَةً، اٴوْدَمَعَتْ عَیْنَاہُ فِیْنَا دَمْعَةً، اِلاَّ بوّاٴہ اللّٰہُ بِھَا فِی الْجَنَّةِ حُقَباً“۔[7]
”جو شخص ھمارے مصائب پر اپنی آنکھوں سے ایک قطرہ آنسوں بھائے یا اپنی آنکھوں سے اشک جاری کرے تو خداوندعالم اس کے سبب ان کو بہشت جاویدانی میں جگہ عنایت فرمائے گا“۔
معاویہ بن وھب نے حضرت امام صادق علیہ السلام سے روایت کی ھے کہ امام علیہ السلام نے فرمایا:
”کُلُّ الجَزَعِ وَالبُکَاء مَکرُوہُ سِوَی الجَزَعِ وَالبُکاَءِ عَلَی الْحُسَیْنِ علیہ السلام“۔[8]
”ھر طرح کی آہ و نالہ ناپسند ھے مگر امام حسین علیہ السلام کے اوپر گریہ و زاری“۔
محمد بن مسلم کہتے ھیں: میں نے حضرت امام صادق علیہ السلام سے سنا کہ آپ نے فرمایا:
بے شک حضرت امام حسین بن علی (علیھما السلام) اپنے پروردگار کی بارگاہ میں اپنے مقتل اور آپ کے ساتھ آنے والے اصحاب کی طرف نظر فرماتے ھیں اور اپنے زائر پر توجہ کرتے ھیں اور اپنے زائروں کے نام، ان کے والدین کے نام اور خدا کے نزدیک ان کے مرتبوں کو انسان کے اپنی اولاد کو جاننے سے زیادہ جانتے ھیں اور یقینا جب آپ ان پر گریہ کرنے والے کو دیکھتے ھیں تو اس کی بخشش کے لئے دعا کرتے ھیں اور اپنے آباء و اجداد سے بھی خواہش کرتے ھیں کہ اس کی مغفرت کے لئے دعا کریں۔[9]
سید ابن طاؤس، اھل بیت علیھم السلام پر گریہ کے سلسلہ میں اھل بیت علیھم السلام سے ایک عجیب روایت نقل کرتے ھیں کہ فرمایا:
جو شخص ھمارے مصائب پر گریہ کرے اور سو لوگوں کو رُلائے اس پر جنت واجب ھے، اور جو شخص خود روئے اور پچاس لوگوں کو رُلائے اس پر جنت واجب ھے، اور جو شخص خود روئے اور تیس لوگوں کو رُلائے اس پر جنت واجب ھے، اور جو شخص خود روئے اور بیس لوگوں کو رُلائے اس پر جنت واجب ھے، اور جو شخص خود روئے اور دس لوگوں کو رُلائے ، اس پر جنت واجب ھے، اور جو شخص خود روئے اور ایک شخص کو رلائے اس پر جنت واجب ھے، اور جو شخص رونے والے کی صورت بنائے تو اس پر جنت واجب ھے۔[10]
ھارون مکفوف، حضرت امام صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ھیں کہ امام علیہ السلام نے ایک طولانی حدیث کے ضمن میں فرمایا:
جس کے سامنے امام حسین علیہ السلام کی یاد کی جائے اور اس کی آنکھوں سے مکھی کے پر کے برابر اشک آجائے اس کا ثواب صرف خدا کے پاس ھے اور خداوندعالم اس کے لئے جنت سے کم پر راضی نھیں هوگا۔[11]
حضرت امام رضا علیہ السلام نے فرمایا:
”فَعَلَی مِثلِ الحُسَیْنِ فَلْیَبْکِ البَاکُونَ، فَاِنَّ الْبُکَاءَ عَلَیْہِ یَحُطُّ الذُّنُوبَ العِظاَمَ...“۔[12]
”(امام) حسین کے مثل پر رونے والوں کو رونا چاہئے کیونکہ ان پر رونے سے بڑے بڑے گناہ دھل جاتے ھیں...“۔
نیز امام (رضا) علیہ السلام نے ابن شبیب سے فرمایا:
”یَابْنَ شَبِیْبٍ! اِنْ کُنْتَ بَاکِیاً لِشَیءٍ ، فَابْکِ لِلْحُسَیْنِ بْنِ عَليِّ بْنِ اٴبِي طَالِب...“۔
”اے ابن شبیب! اگر تمھیں کسی چیز پر گریہ آئے تو حسین بن علی بن ابی طالب (علیھم السلام) پر گریہ کرو...“۔
نیز اسی روایت کے ایک حصہ میں فرمایا:
”بکت السَّمٰاواتُ السَبْعِ وَالْاٴَرَضُوْنَ لِقَتْلِہِ اِلیٰ اٴَنْ قٰالَ: یٰابْنَ شُبِیْبٍ! اِٴنْ بَکَیْتَ عَلیٰ الْحُسَیْنِ حَتّٰی تْصِیْرَ دُمُوْعُکَ عَلیٰ خَدَّیْکَ، غَفَر اللّٰہ لک کُلُّ ذَنْبٍ...“۔[13]
”زمین و آسمان نے امام حسین علیہ السلام کے قتل پر گریہ کیا، یھاں تک کہ امام علیہ السلام نے فرمایا: اے ابن شبیب! اگر امام حسین علیہ السلام پر اتنا روئے کہ تمھارے آنسو تمھارے رخسار تک آجائیں تو خداوندعالم تمھارے گناهوں کو بخش دے گ...“۔
یہ تھے چند روایات کے نمونے جو اھل بیت علیھم السلام مخصوصاً امام حسین علیہ السلام کے مصائب پر رونے کے سلسلہ میں بیان هوئی ھیں، تفصیل گرانقدر اسلامی کتب میں وارد هونے والی روایتوں کے پیش نظر درج ذیل نکات معلوم هوتے ھیں:
۱۔ گریہ صرف اسی کا قبول ھے اور خدا کے نزدیک اجر عظیم رکھتا ھے جو مومن هوگا۔
۲۔ اس مومن کا گریہ اھمیت رکھتا ھے جو اپنی وجودی وسعت کے ساتھ اھل بیت علیھم السلام کا پیرو هو۔
۳۔ اس انسان کے گریہ کی بہت قدر و قیمت ھے جو خلوص کے ساتھ گریہ کرے اور اپنے گریہ میں خدا و رسول اور اھل بیت علیھم السلام کی خوشنودی پیش رکھے۔
۴۔ اس انسان کا گریہ باقی رھنے والا ھے اور اس کے نامہ اعمال میں لکھا جاتا ھے جو اپنے دامن کو گناهوں سے آلودہ نہ کرے اور فسق و فجور اور عصیان میں غرق نہ هو اور اس کا وجود لوگوں کے لئے شرّ اور بد بختی کا سبب نہ هو۔
۵۔ قرآن کریم کی آیات اور روایات کے پیش نظر روز قیامت اس مومن کا گریہ، رحمت الٰھی اور مغفرت پروردگار نیز اھل بیت علیھم السلام کی شفاعت میں تبدیل هوگا جس میں لازمی شرائط پائے جاتے هوں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] امالی، صدوق، ص۷۳، مجلس۱۷، حدیث۴؛ نفس المھموم، ص۴۰؛ بحار الانوار، ج۴۴، ص۲۷۸، باب۳۴، حدیث۱.
[2] کامل الزیارات، ص۱۰۱، باب۳۲، حدیث۶؛ بحار الانوار، ج۴۴، ص۲۸۹، باب۳۴، حدیث۳۱.
[3] کامل الزیارات، ص۱۰۸، باب۳۶، حدیث۱؛ بحار الانوار، ج۴۴، ص۲۸۰، باب۳۴، حدیث۱۰.
[4] تفسیر قمی، ۲، ص۲۹۲؛ بحار الانوار، ج۴۴، ص۲۷۸، باب۳۴، حدیث۳.
[5] امالی، طوسی، ص۱۱۵، مجلس ۴، حدیث۱۷۸؛ بشارة المصطفیٰ، ص۱۰۵؛ امالی، مفید، ص۳۳۸، مجلس ۴۰ حدیث۳؛ بحار الانوار، ج۴۴، ص۲۷۸، باب۳۴، حدیث۴.
[6] کامل الزیارات، ص۱۰۸، باب۳۶، حدیث۶؛ بحار الانوار، ج۴۴، ص۲۷۹، باب۳۴، حدیث۵؛ مستدرک الوسائل، ج۱۰، ص۳۱۱، باب۴۹، حدیث۱۲۰۷۲.
[7] امالی، طوسی، ص۱۱۶، مجلس ۴، حدیث۱۸۱؛ امالی، مفید، ص۳۴۰، مجلس ۴۰،حدیث۶؛ بشارة المصطفیٰ، ص۶۲؛ بحار الانوار، ج۴۴، ص۲۷۹، باب۳۴، حدیث۸.
[8] امالی، طوسی، ص۱۶۱، مجلس ۶، حدیث۲۶۸؛ وسائل الشیعة، ج۳، ص۲۸۲، باب۸۷، حدیث ۳۶۵۷؛ بحار الانوار، ج۴۴، ص۲۸۰، باب۳۴، حدیث۹.
[9] امالی، طوسی، ص۵۴، مجلس ۲، حدیث۷۴؛ بشارة المصطفیٰ، ص۷۷؛ وسائل الشیعة، ج۱۴، ص۴۲۲، باب۳۷، حدیث ۱۹۵۰۸؛ بحار الانوار، ج۴۴، ص۲۸۱، باب۳۴، حدیث۱۳.
[10] بحار الانوار، ج۴۴، ص۲۸۸، باب۳۴، حدیث۲۷.
[11] کامل الزیارات،ص۱۰۰، باب۳۲، حدیث۳.
[12] امالی، صدوق، ص۱۲۸، مجلس ۲۷، حدیث۲؛ روضة الواعظین، ج۱، ص۱۶۹؛ وسائل الشیعة، ج۱۴، ص۵۰۴، باب۶۶، حدیث ۱۹۶۹۷؛ بحار الانوار، ج۴۴، ص۲۸۳، باب۳۴، حدیث۱۷.
[13] عیون اخبار الرضا، ج۱، ص۲۹۹، باب۲۸، حدیث۵۸؛ امالی، صدوق، ص۱۲۹، مجلس ۲۷، حدیث۵؛ وسائل الشیعة، ج۱۴، ص۵۰۲، باب۶۶، حدیث ۱۹۶۹۴؛ بحار الانوار، ج۴۴، ص۲۸۵، باب۳۴، حدیث۲۳.

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
2 + 0 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 35