خلاصہ: جب بھی کوئی مؤمن زیارت کو جاتا ہے تو اس کے لئے ضراری ہے کہ وہ زیارت کے آداب کا خصوصی خیال رکھے۔ اسی لئے اس مضمون میں امام حیسن(علیہ السلام) کی زیارت کے آداب کو بیان کیا جارہا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اور اھل بیت عصمت و طھارت(علیہم السلام)کی ظاہری حیات میں جس شخص کو بھی آپ کی زیارت نصیب ہوتی وہ آپ کے لطف وکرم سے فائدہ اٹھاتا اور وہ حضرات، خداوند متعال کی عطا کردہ مادی و معنوی اور معرفتی نعمتوں سے اپنے زائرین کو فیضیاب فرماتے تھے۔ اپنی شہادت کے بعد بھی وہ خدا کی عطاکردہ ان نعمتوں کو خداوند متعال کے اذن سے اپنے زائرین اور شیعوں کوعطا فرما سکتے ہیں اور اپنے چاہنے والوں کے لئے پروردگار عالم کی بارگاہ میں دعا اور ان کے لئے پروردگار عالم کا لطف وکرم اور رحمت و بخشش طلب کر سکتے ہیں۔
ایک زائر کے لئے بہترین اور اہم مقصد یہ ہونا چاہئے کہ وہ امام(علیہ السلام) کے وجود سے معنویت کو حاصل کرے اور اللہ کی بخشش اور لطف و کرم اس کے شامل حال ہو اور ایک ایسے ماحول میں جو کہ فرشتوں کی رفت و آمد کی جگہ ہے، خدائے یکتا کی بندگی و عبادت کی کوشش کرنا چاہئے، اور امام حسین(علیہ السلام) کے حرم کا بہترین زائر وہ ہے جو آداب زیارت اور مہمان ہونے کی شرایط کی رعایت کرتا ہے۔ اسی غرض سے اس مقالہ میں زیارت کے چند آداب کو بیان کیا جارہا ہے جسے شیخ عباس قمی(رح) نے مناتیح الجنان میں بیان فرمایا ہے۔
۱۔ زیارت کیلئے جانے سے قبل تین دن روزہ رکھے اور تیسرے دن غسل کرے جیسا کہ امام جعفر صادق(علیہ السلام) نے اسکا حکم صفوان کو دیا تھا۔ شیخ محمد ابن مشہدی نے عیدین کی زیارت کے مقدمہ میں کہا ہے کہ جب زیارت کو جانے کا قصد کرے تو پہلے تین دن روزہ رکھے اور تیسرے دن غسل کرے اور اپنے اہل و عیال کو اپنے پاس جمع کر کے یہ پڑھے:اَللّٰھُمَّ إنِّی ٲَسْتَوْدِعُکَ الْیَوْمَ نَفْسِی وَٲَھْلِی وَمالِی وَوَلَدِی وَکُلَّ مَنْ کانَ مِنِّی بِسَبِیلٍ الشَّاھِدَ مِنْھُمْ وَالْغائِبَ اَللّٰھُمَّ احْفَظْنا بِحِفْظِ الْاِیمَانِ وَاحْفَظْ عَلَیْنا اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنا فِی حِرْزِکَ وَلاَ تَسْلُبْنا نِعْمَتَکَ وَ لاَ تُغَیِّرْ مَا بِنا مِنْ نِعْمَۃٍ وَعافِیَۃٍ، وَزِدْنا مِنْ فَضْلِکَ إنَّا إلَیْکَ راغِبُونَ۔
اے معبود میں آج تیرے سپرد کرتا ہوں اپنی جان اپنا خاندان اپنا مال اور اولاد اور وہ سب کچھ جو میرے ساتھ متعلق ہے وہ اس وقت حاضر ہے یا غائب اے معبود! ہماری حفاظت کر اپنی نگہبانی سے ہمارے ایمان کی اور ہماری حفاظت فرما‘ اے معبود‘ ہمیں اپنی پناہ میں رکھ ہم سے اپنی نعمت واپس نہ لے اور تبدیلی نہ کر اس میں جو نعمت اور سکھ ہمیں دیا ہے اور ہم پر زیادہ فضل فرما کہ ہم نے تیری طرف رغبت کی ہے۔
اس کے بعد نہایت عاجزی اور فروتنی کے ساتھ گھر سے نکلے اور یہ کلمات کثرت سے دہراتا جائے:لَا اِلَہَ اِلَّااﷲ ُوَاﷲُ اَکْبَرُ وَالْحَمْدُ ﷲِ ۔اللہ کے سوائ کوئی معبود نہیں اللہ بزرگتر ہے اور حمد، اللہ ہی کیلئے ہے۔
پھر خدائے تعالیٰ کی ثنا حضرت رسول اور انکی آل پر درود پڑھتے ہوئے بڑے وقار اور آہستہ آہستہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے ہوئے چلے۔ ایک روایت میں ہے کہ حق تعالیٰ امام حسین(علیہ السلام) کے زائر کے پسینے کے ہر قطرے سے ایک ہزار فرشتے پیدا فرماتا ہے۔
جو خدا کی تسبیح کرتے ہیں اور خود اس شخص کے لیے اور ہر زائر کے لیے قیامت تک استغفار کرتے رہتے ہیں۔
۲۔ امام جعفر صادق(علیہ السلام) سے روایت ہوئی ہے کہ جب امام حسین(علیہ السلام) کی زیارت کو جائے تو اسکے سر کے بال الجھے ہوئے اور گرد آلود ہوں اور زائر بھوکا پیاسا کیونکہ امام حسین(علیہ السلام) اسی حالت میں شہید کئے گئے تھے پس وہاں اپنی حاجات طلب کر ے پھر اپنے گھر لوٹ آئے اور کربلا کو اپنا وطن نہ بنائے۔
۳۔ زیارت پر جاتے ہوئے لذیذ غذائیں جیسے حلوہ اور بریانی کو اپنا زاد راہ نہ بنائے بلکہ روٹی دودھ اور دہی وغیرہ کو اپنی غذا قرار دے،
۴۔ سفر زیارت کے دوران مستحب ہے کہ انسان عاجزی ،انکساری ،خضوع، خشوع اور ذلیل غلام کی طرح راستہ طے کرے۔ پس آج کل جو لوگ جدید ذرائع جیسے ریل گاڑی اور ہوائی جہاز میں سوار ہو کر جاتے ہیں انہیں بطور خاص یہ خیال رکھنا چاہیے کہ وہ دوسرے زائرین پر اپنی بڑائی نہ جتائیں جو بڑی مشقتوں کے ساتھ کر بلا معلی پہنچتے ہیں۔
۵۔ اگر راستے میں دیکھے کہ امام حسین(علیہ السلام) کے زائر تھکے ہوئے ہیں اور دوسروں سے پیچھے رہ گئے ہیں تو جہاں تک ہو سکے ان کی مدد و خدمت کرے اور ان کو منزل پر پہنچانے کی کوشش کرے یاد رہے کہ نہ ان کو کمتر سمجھے اور نہ ہی ان کو نظر انداز کرے۔
۶۔ ثقہ جلیل محمد بن مسلم سے روایت ہے کہ میں نے امام محمد باقر(علیہ السلام) کی خدمت میں عرض کیا کہ جب ہم آپ کے جد بزرگوار امام حسین(علیہ السلام) کی زیارت کو جائیں تو کیا یہ حج پر جانے کے مترادف نہیں ہے آپ نے فرمایا: ہاں ایسا ہی ہے! میں نے عرض کی تو پھر ہمارے لیے وہی امور ضروری ہیں جو حج کے سفر میں ہوتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ہاں تم پر لازم ہے کہ اپنے رفیق سفر کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو اچھی بات اور ذکر الہٰی کے سوا کوئی بات نہ کرو تمہارا لباس پاک و پاکیزہ ہونا چاہیے زائر حرم میں جانے سے پہلے غسل کرے اور عاجزی و انکساری کے ساتھ چلے بہت زیادہ نمازیں پڑھے اور محمد و آل محمد پر کثرت سے درود و سلام بھیجے۔ اپنے آپ کو نامناسب و ناروا باتوں اور کاموں سے روکے آنکھوں کو حرام اور شبہ والی چیزوں کی طرف سے بند رکھے پریشان حال برادر مومن کے ساتھ احسان و نیکی کرے اور اگر کسی کے مصارف کم پڑگئے ہوں تو اس کی مالی امدار کرے اور اپنے مصارف کی رقم خود اس پر تقسیم کر دے تقیہ کرتا رہے کہ دین کی حفاظت تقیہ میں ہے جن چیزوں سے خدائے تعالیٰ نے روکا ہے ان سے بچتا رہے ۔قسم نہ کھائے اور کسی سے لڑائی جھگڑا نہ کرے کہ جس میں اسے قسم اٹھانا پڑے۔ پس اگر تم ان باتوں پر عمل کرو تو زیارت حسین(علیہ السلام) میں تمہیں حج و عمرہ کا ثواب حاصل ہو گا اور تم کو اس شخص کی طرف سے بھی ثواب ملے گا جس کے لئے تم نے اپنا مال خرچ کیا اور اپنے اہل و عیال کو چھوڑ کر آئے ہو۔ وہ تمہارے گناہ معاف کر دے گا اور تمہیں اپنی رحمت و خوشنودی سے ہم کنار کر دے گا۔
۷۔ ابو حمزہ ثمالی نے امام جعفر صادق(علیہ السلام) سے زیارت امام حسین(علیہ السلام) کے بارے میں نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا: زائر جب کربلا معلی پہنچے تو اپنا سامان اتار دے تیل اور سرمہ نہ لگائے گوشت نہ کھائے جب تک وہاں رہے۔
۸۔ فرات کے پانی سے غسل کرے کہ اس کی فضلیت میں بہت سی روایات آئی ہیں اور امام جعفر صادق(علیہ السلام) کی ایک حدیث ہے کہ جو شخص فرات سے غسل کر کے امام حسین(علیہ السلام) کی زیارت کرے تو گناہوں سے اس طرح پاک ہو جائے گا جیسے اپنی پیدائش کے دن گناہوں سے پاک تھا اگرچہ گناہ کبیرہ بھی کئے ہوں۔
۹۔ جب حائر یعنی روضہ اقدس کے اندر داخل ہونا چاہے تو مشرق والے دروازے سے داخل ہو جیسا کہ امام جعفر صادق(علیہ السلام) نے یوسف کناسی کو حکم دیا تھا۔
۱۰۔ ابن قولویہ سے روایت ہے کہ امام جعفر صادق(علیہ السلام) نے مفضل بن عمر کو کہا کہ اے مفضل! جب تم امام حسین(علیہ السلام) کے روضہ مبارک کے دروازہ پر پہنچو تو رک جاؤ اور یہ کلمات پڑھنا اگر تم نے یہ کلمات کہے تو ہرکلمے کے بدلے تجھے اللہ تعالیٰ کی رحمت نصیب ہوگی اور وہ کلمات یہ ہیں: اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وارِثَ آدَمَ صَفْوَۃِ اﷲِ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وارِثَ نُوحٍ نَبِیِّ اﷲِ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وارِثَ إبْراھِیمَ خَلِیلِ اﷲِ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وارِثَ مُوسی کَلِیمِ اﷲِ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وارِثَ عِیسَی رُوحِ اﷲِ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وَارِثَ مُحَمَّدٍ حَبِیبِ اﷲِ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وَارِثَ عَلِیٍّ وَصِیِّ رَسُولِ اﷲِ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وارِثَ الْحَسَنِ الرَّضِیِّ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وَارِثَ فاطِمَۃَ بِنْتِ رَسُولِ اﷲِ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ ٲَ یُّھَا الشَّھِیدُ الصِّدِّیقُ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ ٲَ یُّھَا الْوَصِیُّ الْبارُّ التَّقِیُّ، اَلسَّلَامُ عَلَی الْاَرْواحِ الَّتِی حَلَّتْ بِفِنائِکَ وَٲَناخَتْ بِرَحْلِکَ، اَلسَّلَامُ عَلَی مَلائِکَۃِ اﷲِ الْمُحْدِقِینَ بِکَ ٲَشْھَدُ ٲَ نَّکَ قَدْ ٲَ قَمْتَ الصَّلاۃَ، وَآتَیْتَ الزَّکاۃَ، وَٲَمَرْتَ بِالْمَعْرُوفِ، وَنَھَیْتَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَعَبَدْتَ اﷲَ مُخْلِصاً حَتَّی ٲَتَاکَ الْیَقِینُ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ وَرَحْمَۃُ اﷲِ وَبَرَکاتُہُ۔
آپ پر سلام ہو اے آدم (علیہ السلام)کے وارث جو خدا کے برگزیدہ ہیں آپ پر سلام ہو اے نوح (علیہ السلام)کے وارث جو خدا کے نبی ہیں، آپ پر سلام ہو اے ابراہیم(علیہ السلام) کے وارث جو خدا کے خلیل ہیں سلام ہو آپ پر اے موسیٰ کے وارث جو خدا کے کلیم ہیں، آپ پر سلام ہو اے عیسیٰ(علیہ السلام) کے وارث جو روح خدا ہیں آپ پر سلام ہو اے محمد(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے وارث جو خدا کے حبیب ہیں، آپ پر سلام ہو اے علی کے وارث جو رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے وصی ہیںآپ پر سلام ہو اے حسن(علیہ السلام) کے وارث، جو پسندیدہ خدا ہیں آپ پر سلام ہو اے فاطمہ (علیہا سلام)کے وارث جو رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) خدا کی دختر ہیں آپ پر سلام ہو اے وہ، شہید جو صدیق ہے آپ پر سلام ہو اے وہ وصی جو نیک اور پرہیز گار ہے سلام ہو ان روحوں پر، جو آپ کے آستانہ پر اتریں اور اپنی سواریاں یہاں باندھیں سلام ہو خدا کے فرشتوں پر جو آپ کے گرد رہتے ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے نماز قائم کی اور زکوٰۃ دی آپ نے نیک کاموں کا حکم دیا اور برے، کاموں سے روکا آپ نے خدا کی بندگی کی حتیٰ کہ آپ شہید ہو گئے آپ پر سلام ہو اور خدا کی رحمت ہو اور اس کی برکات ہوں۔
اس کے بعد چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے ہوئے قبر شریف کی طرف چلے تاکہ اسے اس شخص کا ثواب ملے جو خدا کی راہ میں اپنے خون میں غلطاں ہو۔ جب قبر مبارک کے قریب پہنچے تو اپنے ہاتھوں کو اس سے مس کرے اور کہے: السَلَّامُ عَلَیْکَ یَا حُجَّۃَ اﷲِ فِیْ اَرْضِہٰ وَسَمَآئِہٰ۔ آپ پر سلام ہو اے خدا کی حجت اس کی زمین و آسمان میں۔
اب دو رکعت نماز پڑھے حضرت(علیہ السلام) کے قرب میں پڑھی گئی ایک رکعت کے بدلے میں اسے ہزار حج و عمرہ، ہزار غلاموں کی آزادی اور ہزار مرتبہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے ساتھ رہ کر جہاد کرنے کا ثواب ملے گا۔
۱۱۔ ابو سعید مدائنی کہتے ہیں کہ میں امام جعفر صادق(علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا کہ آیا میں امام حسین(علیہ السلام) کی زیارت کرنے جائوں؟ آپ نے فرمایا: ہاں ہمارے جد رسول اﷲ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے فرزند کی زیارت کو جاؤ اور جب تم زیارت کرو تو آپ کے سر مبارک کی طرف ہزار مرتبہ تسبیح امیر المؤمنین(علیہ السلام) اور پاؤں کی طرف ہزار مرتبہ تسبیح شہزادی فاطمہ(سلام اللہ علیہیا)پڑھنا پھر دو رکعت نماز پڑھنا جس کی پہلی رکعت میں سورہ یاسین اور دوسری رکعت میں سورہ رحمن پڑھنا جب ایسا کروگے تو تمہارے لیئے بہت عظیم اجر ہوگامیں نے عرض کی آپ پر فدا ہو جاؤں مجھے امیر المؤمنین(علیہ السلام) اور شہزادی فاطمہ(علیہا سلام) کی تسبیح تعلیم فرمائیے کہ وہ کس طرح ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں اے ابو سعید!
امیر المومنین(علیہ السلام) کی تسبیح یہ ہے: سُبْحانَ الَّذِی لاَ تَنْفَدُ خَزَائِنُہُ سُبْحانَ الَّذِی لاَ تَبِیدُ مَعَالِمُہُ سُبْحَانَ الَّذِی لاَ یَفْنی مَا عِنْدَہُ سُبْحَانَ الَّذِی لاَ یُشْرِکُ ٲَحَداً فِی حُکْمِہِ سُبْحانَ الَّذِی لاَ اضْمِحْلالَ لِفَخْرِہِ سُبْحانَ الَّذِی لاَ انْقِطاعَ لِمُدَّتِہِ سُبْحانَ الَّذِی لاَ إلہَ غَیْرُہُ۔
پاک ہے وہ جس کے خزانے ختم نہیں ہوئے پاک ہے وہ جس کی نشانیاں مٹتی نہیں پاک ہے وہ کہ جو کچھ اس کے پاس ہے فنا نہیں ہوتا پاک ہے وہ جس کے حکم میں کوئی اس کا شریک نہیں پاک ہے وہ جس کا افتخار کم نہیں ہوتا پاک ہے وہ جس کی بزندگی کا سلسلہ نہیںٹوٹتا پاک ہے وہ جس کے سوا کوئی معبود نہیں
اور تسبیح حضرت زہرا(سلام اللہ علیہا) یہ ہے: سُبْحانَ ذِی الْجَلالِ الْبَاذِخِ الْعَظِیمِ سُبْحَانَ ذِی الْعِزِّ الشَّامِخِ الْمُنِیفِ سُبْحانَ ذِی الْمُلْکِ الْفَاخِرِ الْقَدِیمِ سُبْحَانَ ذِی الْبَھْجَۃِ وَالْجَمَالِ سُبْحانَ مَنْ تَرَدَّیٰ بِالنُّورِ وَالْوَقارِ سُبْحانَ مَنْ یَریٰ ٲَ ثَرَ النَّمْلِ فِی الصَّفَا وَوَقْعَ الطَّیْرِ فِی الْھَوَائِ ۔
پاک ہے وہ جو بڑے جلال و بزرگی کا مالک ہے پاک ہے وہ جو بڑی بلند عزت کا مالک ہے پاک ہے وہ جو قدیم ملک و افتخار والا ہے پاک ہے وہ جو حسن(علیہ السلام) و جمال والا ہے پاک ہے وہ جس نے نور اور وقارکی ردا پہنی پاک ہے وہ جوپتھر پر چلتی چیونٹی کا نقش پا اور ہوا میں اڑتے پرندے کو دیکھتا ہے۔
۱۲۔ اپنی فریضہ و نافلہ نمازیں امام حسین(علیہ السلام)کی قبر کے قریب ادا کرے کہ وہاں نماز قبول ہوتی ہے‘ سید ابن طائوس نے فرمایا ہے کہ زائر کوشش کرے کہ حائر حسینی میں اس کی کوئی فریضہ اور نافلہ نماز فوت نہ ہو ۔ کیونکہ روایت میں ہے کہ قبر امام حسین(علیہ السلام) کے نزدیک فریضہ نماز کا ثواب حج کے برابر اور نافلہ کا ثواب عمرہ کے برابر ہے[۱]۔
خدا ہم سب کو امام حسین(علیہ السلام) کی زیارت کرنے کو توفیق عطا فرمائے، اور زہارت کے جو آداب ہیں ان کی رعایت کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہم جب زیارت سے واپس ہوں تو ہمارا دل، معرفت امام سے مالا مال ہو اور ہمارے تمام گناہ بخش دئے گئےہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[۱]۔ شیخ عباس قمی، مفاتیح الجنان، انتشارات آئین دانش، ص۶۹۴، ۱۸۴۔
Add new comment