امام حسین(علیہ السلام) کے اخلاق کا ایک نمونہ

Tue, 06/06/2017 - 11:07

خلاصہ: امام حسین(علیہ السلام) کی زندگی کا ہر لمحہ ہمارے لئے  مشعل راہ ہے انھوں نے اپنوں اور غیروں سب کے ساتھ کس طرح زندگی گذاری اس کو دیکھ کر اس پر عمل کرنا ہم سب کے لئے ضروری ہے۔

امام حسین(علیہ السلام) کے اخلاق کا ایک نمونہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم
     امام حسین(علیہ السلام)، نہ صرف شیعوں کے دلوں میں مقام و منزلت رکھتے ہیں بلکہ تمام مذاہب اسلامی اور غیر اسلامی آپ کو ایک فداکار شخصیت کے عنوان سے پہچانتے ہیں۔ کیونکہ امام حسین(علیہ السلام) نے نہ صرف اسلام بلکہ انسانیت کو آزادی اور فداکاری کا درس دیا اور صرف زبان کے ذریعہ اس کو بیان نہیں کیا بلکہ اپنے اخلاق اور کردار کے ذریعہ لوگوں کو انسانیت کا درس دیا، کربلاء امام حسین(علیہ السلام) کی فداکاری کے اعلی درجہ کا نام ہے، امام حسین(علیہ اسلام) کی شخصیت میں وہ فداکاری کا جذبہ موجود تھا اسی لئے تو امام حسین(علیہ السلام) نے اتنی بڑی فداکاری کو پیش کیا، اسی بات کو مدّنظر رکھتے ہوئے اس مضمون میں امام حسین(علیہ السلام) کی فداکاری کے ایک نمونہ کو بیان کیا  جارہا ہے ۔
     عصام ابن مصطلق سے نقل کیا گیا ہے: وہ کہتا ہے کہ میں جب مدینہ میں داخل ہوا تو میں امام حسین(علیہ السلام) کی شھرت کو دیکھ کر پریشان ہوگیا، مجھے امام حسین(علیہ السلام) سے حسد ہونے لگا اور میں اپنے حسد کی بناء پر مجبور ہو گیا کہ میرے دل میں جو ان کی دشمنی تھی اسے آشکار کرو، میں امام حسین(علیہ السلام) کے پاس گیا اور میں نے کہا: تم ابوتراب کے بیٹے ہو؟
امام حسین(علیہ السلام) نے فرمایا: ہاں۔
     میں نے اس وقت ان کے والد کو بہت زیادہ گالیاں دیں اور ان کے بارے میں بہت زیادہ برابھلا کہا؛ لیکن امام حسین(علیہ السلام) نے میری جانب محبت بھری ہوئی نگاہوں سے دیکھا اور فرمایا: «اعوذ باللّه من الشّیطان الرّجیم خُذِ الْعَفْوَ وَ أْمُرْ بِالْعُرْفِ وَ أَعْرِضْ عَنِ الْجاهِلينَ وَ إِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ إِنَّهُ سَميعٌ عَليمٌ[سورۂ اعراف، آیات:۱۹۹ اور ۲۰۰] آپ عفو کا راستہ اختیار کریں نیکی کا حکم دیں اور جاہلوں سے کنارہ کشی کریں اور اگر شیطان کی طرف سے کوئی غلط خیال پیدا کیا جائے تو خدا کی پناہ مانگیں کہ وہ ہر شیٔ کا سننے والا اور جاننے والا ہے»۔
     اس کے بعد انہوں نے فرمایا: اپنے لئے آسانی سے کاموں کو انجام دو اور اپنے لئے اور میرے لئے خدا سے مغفرت طلب کرو، اگر مجھ سے کسی چیز کی مدد چاہئے ہو تو کہو میں تمھاری مدد کرونگا اور تم کو کوئی چیز چاہئے تو کہو میں تم کو بخش دونگا اور تم مجھ سے راہنمائی چاہتے ہو تو میں تمھاری رہنمائی کرونگا[۱]۔
     عصام ابن مصطلق امام حسین(علیہ السلام) کے اس کردار کو دیکھ کر اپنی غلطی پر نادم ہوگیا اور بہت زیادہ پشیمانی کا اظھار کرنے لگا؛ لیکن امام حسین(علیہ السلام) نے نہ صرف اس کے اس کردار پراس کی سرزنش نہیں کی بلکہ اپنے بہترین اخلاق کے ذریعہ اس سے فرمایا: «قالَ لا تَثْريبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ يَغْفِرُ اللَّهُ لَكُمْ وَ هُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمين[ سورۂ یوسف، آیت:۹۲] یوسف(علیہ السلام) نے کہا کہ آج تمہارے اوپر کوئی الزام نہیں ہے خدا تمہیں معاف کردے گا کہ وہ بڑا رحم کرنے والا ہے»۔

نتیجہ:
     امام حسین(علیہ السلام) نے صرف اپنے ایک اچھے اخلاق کے ذریعہ جو آپ کا دیرینہ دشمن تھا اس کو سیدھے راستے کی ہدایت کردی، یہاں پر ہمارے لئے لمحۂ فکر ہے! ہم جو اپنے آپ کو امام حسین(علیہ السلام) کا  غلام کہتے ہیں کیا ہمارے اندر اس اخلاق کا ایک آخری حصہ بھی پایا جاتا ہے، اور اگر نہیں پایا جاتا تو ہم کس بناء پر اپنے آپ کو اما م حسین(علیہ السلام) کا غلام اور چاہنے والے کہتے ہیں؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[۱] سفینه البحار، شیخ عباس قمی، ج۲، ص۷۰۵، اسوہ، قم، ۱۴۰۴ق۔

 

 

kotah_neveshte: 

بسم اللہ الرحمن الرحیم
     عصام ابن مصطلق سے نقل کیا گیا  ہے کہ: وہ کہتا ہے کہ میں جب مدینہ میں داخل ہوا تو میں امام حسین(علیہ السلام) کی شھرت کو دیکھ کر پریشان ہوگیا، مجھے امام حسین(علیہ السلام) سے حسد ہونے لگی اور میں اپنے حسد کی بناء پر مجبور ہو گیا کہ میرے دل میں جو ان کی دشمنی تھی اسے آشکار کرو، میں امام حسین(علیہ السلام) کے پاس گیا اور میں نے کہا: تم ابوتراب کے بیٹے ہو؟
امام حسین(علیہ السلام) نے فرمایا: ہاں۔
     میں نے اس وقت ان کے والد کو بہت زیادہ گالیاں دیں اور ان کے بارے میں بہت زیادہ برا بھلا کہا؛ لیکن امام حسین(علیہ السلام) نے میری جانب محبت بھری ہوئی نگاہوں سے دیکھا اورقرآن کی ایک آیت کی تلاوت کی اور فرمایا: اپنے لئے اور میرے لئے خدا سے مغفرت طلب کرو، اگر مجھ سے کسی چیز کی مدد چاہئے ہو تو کہو میں تمھاری مدد کرونگا اور تم کو کوئی چیز چاہئے تو کہو میں تم کو بخش دونگا اور تم مجھ سے راہنمائی  چاہتے ہو تو میں تمھاری رہنمائی کرونگا[سفینه البحار، ج۲، ص۷۰۵]۔
     عصام ابن مصطلق  امام حسین(علیہ السلام) کے اس کردار کو دیکھ کر اپنی غلطی پر نادم ہوگیا اور بہت زیادہ پشیمانی کا اظھار کرنے لگا؛ لیکن امام حسین(علیہ السلام) نے نہ صرف اس کے اس کردار پر اس کی سرزنش نہیں کی بلکہ اپنے بہترین اخلاق کے ذریعہ اس سے فرمایا: «قالَ لا تَثْريبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ يَغْفِرُ اللَّهُ لَكُمْ وَ هُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمين[ سورۂ یوسف، آیت:۹۲] یوسف(علیہ السلام) نے کہا کہ آج تمہارے اوپر کوئی الزام نہیں ہے خدا تمہیں معاف کردے گا کہ وہ بڑا رحم کرنے والا ہے»۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سفینه البحار، شیخ عباس قمی، اسوہ، قم، ۱۴۰۴ق۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
2 + 16 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 84