امام حسین(علیہ السلام) کے زائرین کے لیئے سات سنہرے نکات

Sun, 04/16/2017 - 11:16

امام صادق (علیہ السلام) نے سید الشھداء (علیہ السلام) کے زائرین کے لیئے دعا کی ہے اور اس دعا میں ان زائرین کی کچھ خصوصیات کو بیان فرمایا ہے۔

 امام حسین(علیہ السلام) کے زائرین کے لیئے سات سنہرے نکات

بسم اللہ الرحمن الرحیم

امام صادق (علیہ السلام) کی دعا امام حسین (علیہ السلام) کے زائرین کے لیئے۔

معاویہ ابن وھب سے روایت ہے کہ ایک دن نماز کے بعد میں امام صادق (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوا اور دیکھا کہ امام (علیہ السلام) اپنے جدّ سید الشھداء کے زائرین کے لیئے پروردگار عالم سے دعا مانگ رہے ہیں:
 [عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ وَهْبٍ قَالَ: اسْتَأْذَنْتُ عَلَى أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع فَقِيلَ لِي ادْخُلْ فَدَخَلْتُ فَوَجَدْتُهُ فِي مُصَلَّاهُ فِي بَيْتِهِ فَجَلَسْتُ حَتَّى قَضَى صَلَاتَهُ فَسَمِعْتُهُ وَ هُوَ يُنَاجِي رَبَّهُ وَ يَقُولُ- يَا مَنْ خَصَّنَا بِالْكَرَامَةِ وَ خَصَّنَا بِالْوَصِيَّةِ وَ وَعَدَنَا الشَّفَاعَةَ وَ أَعْطَانَا عِلْمَ مَا مَضَى وَ مَا بَقِيَ وَ جَعَلَ أَفْئِدَةً مِنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْنَا اغْفِرْ لِي وَ لِإِخْوَانِي وَ لِزُوَّارِ قَبْرِ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْحُسَيْنِ ع الَّذِينَ أَنْفَقُوا أَمْوَالَهُمْ وَ أَشْخَصُوا أَبْدَانَهُمْ‏ رَغْبَةً فِي‏ بِرِّنَا وَ رَجَاءً لِمَا عِنْدَكَ فِي صِلَتِنَا وَ سُرُوراً أَدْخَلُوهُ عَلَى نَبِيِّكَ صَلَوَاتُكَ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ إِجَابَةً مِنْهُمْ لِأَمْرِنَا وَ غَيْظاً أَدْخَلُوهُ عَلَى عَدُوِّنَا أَرَادُوا بِذَلِكَ رِضَاك‏[1]]

معاویہ کہتا ہے کہ میں امام صادق (علیہ السلام) سے اندر آنے کی اجازت لی اور امام (علیہ السلام) نے اجازت دی، میں کے پاس آیا تو دیکھا کہ آپ نماز میں مصروف ہیں، میں نماز کے تمام ہونے تک وہیں بیٹھ گیا، میں نے امام (علیہ السلام) کو اس طرح دعا مانگتے سنا کہ وہ اپنے پروردگار سے کہہ رہے تھے:۔۔۔ اے وہ یہ  کہ جسنے ہمکو کرامت اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی جانشینی کے کیئے مخصوص کیا اور ہمکو شفاعت کرنے کا وعدہ کیا اور ہمکو گذشتہ اور آیندہ کا علم دیا اور لوگوں کے دلوں کو ہماری طرف موڑ دیا، (پروردگارا) مجھے معاف فرما اور میرے بھائیوں کو معاف فرما اور ابا عبد اللہ الحسین بن علی (ع) کی قبر کی زیارت کرنے والوں کو معاف فرما یہ لوگ (وہ ہیں) جنہوں نے اپنا مال خرچ کیا اور اپنے آپ کو زحمت میں ڈالا، ہماری خوشی کے لیئے،اور اس لیئے کہ تجھ سے وہ اجر حاصل کر سکیں جو تونے ہماری محبت میں رکھا ہے اور اس لیئے کہ تیرے نبی کو خوش کر سکیں، اور اس لیئے تاکہ ہمارے حکم کی تامیل کر سکیں اور ہمارے دشمن کے دلوں میں غیظ و غضب ڈال دیں اور ان سب کاموں کے ذریعہ تیری رضا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔۔۔

اس نورانی روایت میں امام (علیہ السالم) نے کچھ ایسے افعال کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جنکے ذریعہ زائرین خداوند عالم کی رضا حاصل کرنا چاہتے ہیں اور یہی کام امام حسین (علیہ السلام) کی زیارت کے آداب مانے جا سکتے ہیں۔امام (علیہ السلام) کی اس دعا کے سات عدد جملوں کی طرف قارئین گرامی کی توجہات کو مبذول کرنا چاہتے ہیں:

(۱)اَلَّذِینَ أَنْفَقُوا أَمْوَالَهُمْ وَ أَشْخَصُوا أَبْدَانَهُمْ
امام حسین (علیہ السلام) کی زیارت میں مال خرچ کرنا اور زحمتیں برداشت کرنا ایک پسندیدہ عمل ہے۔ حتی کہ بعض روایات میں ملتا ہے کہ مومن کو چاہیئے کہ قرض لے کر امام حسین (علیہ السلام) کی زیارت کو جائے اور بعض روایت میں ملتا ہے کہ اگر خود نہیں جا سکتا تو کسی اور کو اپنی نیابت میں پیسے دے کر زیارت کے لیئے بھیجے۔
سید الشھداء (علیہ السلام) کی زیارت کی اتنی اہمیت ہے کہ روایات میں ملتا ہے کہ اگر انسان کو بہت زیادہ زحمات اور مشقتیں اٹھانا پڑیں تب بھی اسے زیارت نہیں چھوڑنا چاہیے[2]۔

(۲) رَغْبَةً فِی بِرِّنَا
امام فرماتے ہیں کہ، امام حسین (علیہ السلام) کا زائر اس لیئے اتنی زحمت اٹھا کر زیارت کرتا ہے تاکہ ہم اہلبیت (علیہ السلام) کی نسبت نیکی کر سکے۔
ہر شیعہ یہ چاہتا ہے کہ اہلبیت (علیہم السلام) کی خدمت کرے،انکے لیئے کوئی نیکی انجام دے۔ اگر امام صادق (علیہ السلام) کی اس بات پر توجہ کی جائے تو امام (علیہ السلام) جناب سید الشھداء(علیہ السلام) کی زیارت کو اہلبیت (علیہم السلام)کے لیئے نیکی بیان فرما رہے ہیں، اسکا مطلب یہ ہوا کہ اگر کوئی چاہتا ہے کہ اہلبیت (علیہم السلام) کے لیئے کوئی نیک کام کرے تو اسے چاہیئے کہ امام حسین(علیہ السلام) کی زیارت کو جائے۔
یعنی امام حسین (علیہ السلام) کا ہر زائر جو مال خرچ کر کے اور زحمتیں اٹھا کہ زیارت کرتا ہے گویا وہ اہلبیت(علیہم السلام) کی طرف نیکی کر رہا ہے۔

(۳)رَجَاءً لِمَا عِنْدَکَ فِی صِلَتِنَا
اہلبیت (علیہم السلام) سے متصل ہوجانا، انسے ملجانا اور انکے ساتھ ہو جانا بے پناہ اجر و ثواب کا باعث ہے، امام صادق(علیہ السلام) کے اس کلام سے سمجھ میں آتا ہے کہ امام حسین (علیہ السلام) کی زیارت کے ذریعہ مومن اہلبیت اطہار (علیہم السلام) سے قریب ہو جاتا ہے، انکے ہمراہ ہو جاتا ہے۔
گویا زیارت سید الشھداء(علیہم السلام) ہمراہی اہلبیت (علیہم السلام) ہے۔
لھذا امام حسین (علیہ السلام) کا زائر اس زیارت کے ذریعہ اہلبیت اطہار (علیہم السلام) کے ہمراہ ہو جانا چاہتا ہے تاکہ خداوند عالم نے جو ثواب اہلبیت(علیہم السلام) کے ساتھیوں کے لیئے رکھا ہے وہ ثواب اسے مل جائے۔

(۴)سُرُوراً أَدْخَلُوهُ عَلَى نَبِیِّکَ صَلَوَاتُکَ عَلَیْهِ وَ آلِهِ
رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و ّلہ و سلم) نے اپنی رسالت کا اجر محبت اہلبیت قرار دیا ہے۔ِ [قُلْ لا أَسْئَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْراً إِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْب](شوریٰ۲۳)  [3]ہر وہ کام جو محبت اہلبیت (علیہم السلام) کی خاطر ہو وہ رسول خدا(صلی اللہ علیہ و ّلہ و سلم)  کے لیئے باعث مسرت ہو گا۔
لھذا زائر قبر امام حسین (علیہ السلام) بھی خاندان رسول (علیہم السلام)  سے اس زیارت کے ذریعہ محبت کا اظہار کرتا ہے۔ اسی لیئے امام (علیہ السلام) نے اس دعا میں فرمایا کہ زائر امام حسین (علیہ السلام) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و ّلہ و سلم)  کو مسرور کرتا ہے اور اس کام سے بہتر اور کیا ہو سکتا ہے کہ انسان رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کو خوش کر دے۔

(۵)إِجَابَةً مِنْهُمْ لِأَمْرِنَا
جب ایک انسان کسی سے بے پناہ محبت کرتا ہے تو وہ چاہتا ہے کہ میرا محبوب مجھ کو کوئی حکم دے اور وہ اپنے محبوب کے ہر حکم کی تامیل کرے۔
آج کے زمانے میں اگر کوئی چاہتا ہے کہ لبیک یا حسین (علیہ السلام) کو عملی جامہ پہنائے تو اسے امام (علیہ السلام) کی زیارت کے لیئے جانا چاہیئے، امام کی آواز پر لبیک کہنے کی ایک مصداق زیارتون پر جانا ہے۔
ٓسی لیئے امام صادق (علیہ السلام) فرما رہے ہیں کہ زائر یہ چاہتا کہ اپنی اس زیارت کے ذریعہ ہمارے حکم کی تامیل کر سکے۔

(۶)غَیْظاً أَدْخَلُوهُ عَلَى عَدُوِّنَا
یہ ایک فطری بات ہے کہ جتنی زیادہ ہمکو کسی سے محبت ہو گی اتنی شدید اسکے دشمنوں سے نفرت ہو گی۔ اسی لیئے فروع دین میں تولیٰ کے ہمراہ تبریٰ کا بھی ذکر ہے۔ لھذا یہ ایک طبیعی بات ہے کہ اگر ہم کسی سے محبت اور دوستی کا اقرار کر رہے ہیں اور اسکی پیروی اور اتباع کا دعوا کر رہے ہیں تو ضرری ہے کہ انکے دشمنوں کو بھی پہچانیں اور انسے بیزاری کا اعلان کریں۔ اہلبیت(علیہم السلام) کے دشمنوں سے بیزاری کے اعلام کا ایک طریقہ امام حسین (علیہ السلام) کی زیارت کے لیئے جانا ہے۔
امام صادق (علیہ السلام) کی دعا کا یہ جملہ کہ:’’یہ زائرین اس نیت سے جاتے ہیں کہ ہمارے دشمنوں کے دلون میں رعب اور غصے کو بڑہا دیں‘‘ بتا رہا ہے کہ ہمارے زیارتوں پر جانے سے دشمن ناراض ہوتا ہے اسے غصہ آتا ہے وہ زائرین کے ہجوم کو دیکھ کر جلتا ہے اور جس طرح اہلبیت (علیہم السلام) کو راضی کرنا تولیٰ ہے اسی طرح دشمنِ اہلبیت (علیہم السلام) کو ناراض کرنا تبریٰ ہے۔

(۷)أَرَادُوا بِذَلِکَ رِضَوانکَ
ہمارے ہر عمل کا دارومدار ہماری نیت سے وابستہ ہے، اگر نیت صحیح ہے تو عمل لائق تحسین ہے اور اگر نیت میں کھوٹ ہے تو عمل بظاہر کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو خداوند عالم کے نزدیک اسکی کوئی اہمیت نہیں۔ لھذا ہماری یہ کوشش ہونا چاہیئے کہ اپنے ہر کام کو ’’قربۃ الیٰ اللہ‘‘ کی نیت سے انجام دیں۔
امام صادق(علیہ السلام) بھی اسی بات کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں کہ امام حسین(علیہ السلام) کا زائر یہ تمام کام کرتا ہے اور آخر میں اسکا یہی ارادہ ہوتا ہے کہ ’’أَرَادُوا بِذَلِکَ رِضَوانکَ‘‘ تیری مرضی کو حاصل کر سکے۔

خداوند عالم کی بارگاہ میں یہ دعا ہے کہ امام صادق (علیہ السلام) کی یہ دعا اس سال اربعین میں امام حسین (علیہ السلام) کے زائرین کے شاملِ حال ہو، اور زائرین کرام کو ان تمام آداب زیارت کو بجالانے کی توفیق حاصل ہو۔
----------------------------------------------------

[1] شیخ کلینی، الكافي (ط - الإسلامية)، ج‏4، ص: 583
[2] ان جیسی احادیث مختلف کتابوں میں موجود ہیں۔ مثال کے طور پر دیکھیئے کتاب ’کامل الزیارات۔ ابن قولویہ‘
[3] آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کا کوئی اجر نہیں چاہتا علاوہ اس کے کہ میرے اقربا سے محبت کرو

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
6 + 6 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 64