خلاصہ: امام حسن(علیہ السلام) کی خلافت کے بارے میں اختلاف پایا گیا، علماء اہل سنت نے امام حسن(علیہ السلام) کی خلافت کے بارے میں جو باتیں اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے اان کو اس مضمون میں بیان کیا جارہا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
امام حسن مجتبیٰ(علیہ السلام) کی ولادت سن ۳ھجری کو مدینہ میں ہوئی، آپ نے سات سال اور کچھ مہینے تک اپنے نانا رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا زمانہ دیکھا اور آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی آغوش محبت میں پرورش پائی۔ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی رحلت کے بعد جو حضرت فاطمہ زہرا(سلام اللہ علیھا) کی شہادت سے تین یا چھ مہینے پہلے ہوئی، آپ اپنے والد ماجد کے زیر تربیت آ گئے تھے۔
فرزند رسول امام حسن مجتبیٰ(علیہ السلام) اپنے والد گرامی کی شہادت کے بعد خدا کے حکم اور حضرت علی(علیہ السلام) کی وصیت کے مطابق امامت کے درجہ پر فائز ہوئے اور ساتھ ساتھ ظاہری خلافت کے عہدیدار بھی بنے۔ تقریباً چھ ماہ تک آپ مسلمانوں کے خلیفہ رہے اور امور مملکت کا نظم ونسق سنبھالے رہے۔
امام حسن(علیہ السلام) کی خلافت کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے، اس مضمون میں امام حسن(علیہ السلام) کی خلافت کے بارے میں اہل سنت کی کتابوں میں جو نقل ہوا ہے مختصر طور پر بیان کیا جارہا ہے:
١۔ ابن ابی الحدید نے نقل کیا ہے: جس وقت حضرت علی(علیہ السلام) کی رحلت ہویی تو عبداللہ ابن عباس ابن عبدالمطلب لوگوں کے پاس آیے اور ان سے مخاطب ہو کر فرمایا: یقینا امیرالمومنین علی(علیہ السلام) دنیا سے چلے گئے اور اپنا جانشین چھوڑ کر گئے ہیں، اگر تم ان کی دعوت کو قبول کرو گے تو وہ تمہارے پاس آئیگے اور اگر تم پسند نہیں کرتے تو کوئی بھی تمہیں کسی دوسرے پر مجبور نہیں کرے گا، لوگوں نے رونا شروع کردیا اور کہا: وہ ہمارے پاس آئیں، امام حسن(علیہ السلام) داخل ہوئے اور ان کے سامنے خطبہ اراشاد فرمایا: « ایّها الناس! اتّقوا الله فانّا امراءکم و انّا اهل البیت الذین قال الله فینا: (اِنَّما یُرِیدُ اللهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیراً) فبایعه الناس...[۱] اے لوگو! خدا سے ڈرو، یقینا ہم تمہارے امیر ہیں اور ہم اہل بیت وہ ہیں جن کے بارے میں خداوند عالم نے فرمایا: اے اہل بیت خداوند عالم چاہتا ہے کہ تم سے رجس و پلیدی کو اس طرح دور کردے جو پاک کرنے کا حق ہے ۔ پھر لوگوں نے آپ کی بیعت کرلی ...۔»
٢۔ ابن عباس نے امیرالمومنین حضرت علی(علیہ السلام) کی شہادت کے بعد لوگوں سے مخاطب ہو کر فرمایا: « ھذا ابن بنت نبیکم و وصی امامکم فبایعوہ[۲] یہ تمہارے نبی کی بیٹی کے فرزند ہیں اور تمہارے وصی او ر امام ہیں لہذا تم ان کی بیعت کرو»۔
٣۔ ابن ابی الحدید نے خلافت کے متعلق کہا ہے : « وعھد بھا الی الحسن(علیہ السلام) عند موتہ[۳] امام علی (علیہ السلام) نے اپنی شہادت کے وقت امام حسن(علیہ السلام) کی خلافت کے لیے عہد لیا»۔
٤۔ ھیتم بن عدی کہتے ہیں: « حدثنی غیر واحد مممن ادرکت من المشایخ: ان علی بن ابی طالب(علیہ السلام) اصار الامر الی الحسن[۴] میں نے بعض مشایخ کو درک کیا ہے انہوں نے مجھ سے حدیث بیان کی ہے کہ علی بن ابی طالب(علیہ السلام) نے امر خلافت کو حسن (علیہ السلام) کے حوالہ کردیا تھا»۔
٥۔ جندب بن عبداللہ کہتے ہیں: علی(علیہ السلام) میرے پاس آیے، میں نے عرض کیا: « یا امیرالمومنین ! ان فقدناک (فلا نفقدک ) فنبایع الحسن؟ قال : نعم [۵] اے امیرالمومنین! اگر ہم آپ کو درک نہ کرتے (اور خدا ایسا دن نہ دکھلایے ) تو کیا حسن(علیہ السلام)کی بیعت کرتے؟ آپ نے فرمایا: جی ہاں»۔
٦۔ ابوالفرج اور دوسروں نے نقل کیا ہے: جس وقت امیرالمومنین علی(علیہ السلام) کی شہادت اور لوگوں کا امام حسن(علیہ السلام) کی بیعت کرنے کی خبر ابوالاسود کو ملی تو انہوں نے کھڑے ہو کر کہا: « وقد اوصی بالامامه بعدہ الی ابن رسول اللہ ....[۶] یقینا انہوں نے اپنے بعد رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے فرزند امام حسن(علیہ السلام) کی وصیت کی تھی ...»۔
٧۔ مسعودی نے نقل کیا ہے کہ امیرالمومنین علی(علیہ السلام) نے فرمایا: « و انی اوصی الی الحسن و الحسین فاسمعوا لھما و اطیعوا امرھما [۷] یقینا میں حسن و حسین کے لئے وصیت کرتا ہوں لہذا ان دونوں کی باتوں کو غور سے سنو اور ان کی اطاعت کرو»[۸]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے:
[۱]. شرح ابن ابى الحدید، ج۴، ص۸۔ الاغانى، ج۶، ص۱۲۱.
[۲]. شرح ابن ابى الحدید، ج۱۶، ص۳۰۔ الفصول المهمة، ص ۴۶.
[۳]. شرح ابن ابى الحدید، ج۱، ص۵۷.
[۴]. عقد الفرید، ج۴، ص۴۷۴ و ۴۷۵.
[۵]. مناقب خوارزمى، ص۲۷۸.
[۶]. الأغانى، ج۶، ص۱۲۱.
[۷]. اثبات الوصیة، ص۱۵۲.
[۸]. اهل بیت از دیدگاه اهل سنت، على اصغر رضوانى، ص ۲۹.
http://makarem.ir/main.aspx?typeinfo=23&lid=4&mid=316834&catid=28051
Add new comment