ایمان ابوطالب، علماء اہل سنت کی نگاہ میں (۱)

Sun, 04/16/2017 - 11:16

بے شک حضرت ابوطالب ایمان کے بلند درجہ پر فائز رہے ہیں اور یہ بات خود اہل سنت کی معتبر کتابوں سے ثابت ہے مقالہ ھذا میں اہل سنت کی معتبر کتابوں سے ثابت کیا ہے کہ حضرت ابوطالب ابتدا سے رسول خدا کے حامی و مددگار اور ان کے ہم عقیدہ رہے ہیں۔

ایمان ابوطالب، علماء اہل سنت کی نگاہ میں (۱)

تمام علمائے شیعہ اور اہل سنت کے بعض بزرگ علماء نے حضرت ابوطالب کو مومنین اہل اسلام میں سے بیان کیا ہے۔اسلام کی بنیادی کتابوں کے منابع میں بھی ہمیں اس موضوع کے پر سے شواہد ملتے ہیں کہ جن کے مطالعہ کے بعد ہم گہرے تعجب اور حیرت میں پڑجاتے ہیں کہ حضرت ابوطالب پرایک گروہ کی طرف سے اس قسم کی بے جا تہمتیں کیوں لگائی گئیں؟!
‎جو شخص اپنے تمام وجود کے ساتھ پیغمبر اسلام کا دفاع کیا کرتا تھا اور بارہا خوداپنے فرزند کو پیغمبراسلام کے وجود مقدس کو بچانے کے لئے خطرات کے مواقع پر ڈھال بنادیا کرتا تھا!!یہ کیسے هوسکتا ہے کہ اس پر ایسی تہمت لگائی جائے۔
‎یہی سبب ہے کہ دقت نظر کے ساتھ تحقیق کرنے والوں نے یہ سمجھا ہے کہ حضرت ابوطالب کے خلاف، مخالفت کی لہر ایک سیاسی ضرورت کی وجہ سے ہے جو ” شجرہٴ خبیثہٴ بنی امیّہ“ کی حضرت علی علیہ السلام کے مقام ومرتبہ کی مخالفت سے پیداهوئی ہے۔ کیونکہ یہ صرف حضرت ابوطالب کی ذات ہی نہیں تھی کہ جو حضرت علی علیہ السلام کے قرب کی وجہ سے ایسے حملے کی زد میں آئی هو بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہر وہ شخص جو تاریخ اسلام میں کسی طرح سے بھی امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام سے قربت رکھتا ہے ایسے ناجو انمردانہ حملوں سے نہیں بچ سکا، حقیقت میں حضرت ابوطالب کا کوئی گناہ نہیں تھا سوائے اس کے وہ حضرت علی علیہ السلام جیسے عظیم پیشوائے اسلام کے باپ تھے۔
ہم یہاں پر ان بہت سے دلائل میں سے جو واضح طور پر ایمان ابوطالب کی گواہی دیتےہیں کچھ دلائل مختصر طور پر فھرست وار بیان کرتےہیں۔

الف: پیغمبر اسلام کا جناب ابوطالب کے لئے طلب خیر کرنا
ابن جوزى زاد المسير میں اور شمس الدين ذهبى تاريخ الإسلام میں اس طرح رقم طراز ہیں کہ:"عن العباس أنّه سأل النبي صلّى اللّه عليه وآله، ما ترجو لأبي طالب؟ قال: كل الخير أرجوه من ربي".ابن عباس سے نقل ہوا ہے کہ انھوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے جناب ابوطالب سے متعلق سوال کیا کہ آپ اُن سے متعلق خدا سے کیا دعا کرتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: میں اپنے پروردگار سے  اُن کے لئے ہر طرح کا خیر طلب کرتا ہوں۔[1]
ب: محسن اسلام کی تشییع میں بانی اسلام کی حاضری:
بيهقى دلائل النبوة میں لکھتے ہیں: "عن ابن عباس: أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم عاد من جنازة أبي طالب فقال: «وصلتك رحم، وجزيت خيرا يا عم"ابن عباس سے مروی ہے کہ رسول خدا جناب ابوطالب کو دفنا کر لوٹ رہے تھے کہ اثناء راہ میں فرمایا: اے چچا جان بے شک آپ نے صلہ رحم کو بطور احسن انجام دیا اور بہترین نیکی کو انجام دیا ہے۔[2]
يعقوبى کہتا ہے:"ولمّا قيل لرسول الله: إن أبا طالب قد مات عظم ذلك في قلبه واشتدّ له جزعه، ثمّ دخل فمسح جبينه الأيمن أربع مرّات، وجبينه الأيسر ثلاث مرّات، ثمّ قال: يا عم ربيت صغيراً، وكفلت يتيماً، ونصرت كبيراً، فجزاك الله عني خيراً، ومشى بين يدي سريره وجعل يعرضه ويقول: وصلتك رحم، وجزيت خيراً." جب پیغمبر اسلام کو ابوطالب کی خبر وفات دی گئی تو اس غم اندوز خبر نے آپ پر گہرا اثر ڈالا  اور آپ چیخ مار کر رونے لگے چنانچہ آپ ابوطالب کے جنازہ پر تشریف لائے اسکے بعد آپ نے چار مرتبہ چہرے کے دائیں طرف دست شفقت کو پھیرا اسکے بعد بائیں طرف دست شفقت کو ان کے چہرے پر بھیرا  اور آپ نے فرمایا: اے چچا جان: جب میں چھوٹا تھا تو آپ نے میری تربیت کر کے بڑا کیا، جب میں یتیم تھا تو آپ نے میری کفالت کی ذمہ داری لی،  اور جب میں بڑا ہوگیا تو آپ نے میری ہر طرح سے مدد کی لہذا بے شک اللہ آپ کو اسکی جزا دے گا، اسکے بعد آپ تابوت کے قریب گئے اور فرمایا : اے چچا جان بے شک آپ نے صلہ رحم کو بطور احسن انجام دیا اور بہترین نیکی کو انجام دیا ہے۔[3]۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری۔

...........................................................................................................
حوالہ جات
[1] زاد المسير في علم التفسير، ج 5، ص 362، و تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام، ج 1، ص 233۔
[2] دلائل النبوة، ج 2، ص 349 و تاريخ بغداد، ج 13، ص 196 و البداية والنهاية، ج 3، ص 125۔
[3] تاريخ اليعقوبي، ج 2، ص 35۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
1 + 0 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 85