خلاصہ: اس مضمون میں امام حسن(علیہ السلام) کے مدینہ واپس آنے کا مقصد اور آپ علیہ السلام کی شہادت کی کیفیت کو بیان کیا گیا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حضرت امام حسن مجتبي(عليہ السلام) صلح کے معاہدے پر دستخط ہو جانے کے بعد کوفہ سے مدينہ واپس آگئے اور تقريبا دس سال تک مسجدالنبي(صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم) کے ارد گرد اپني زندگي کے ايام بسر کرتے ہوۓ انہوں نے اہم قدم اٹھاۓ، ان کے يہاں آنے کا ايک بہت بڑا مقصد يہ تھا کہ وہ لوگوں کو رسول خدا(صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) اور اہل بيت(علیہم السلام) کي سيرت سے آگاہ کر سکيں اور عوام الناس کو بني اميہ کي سلطنت کے ظلم سے نجات دلا سکيں۔
دوسری طرف معاويہ نے امام حسن(عليہ السلام)کي معاشرتی اور سياسی شخصيت کا مقابلہ کرنے کے ليۓ مختلف طرح کے حربے اپنانا شروع کر دئے جن کا مقصد يہ تھا کہ لوگوں کے دلوں سے اس عظيم شخصيت کي محبت کو نکال ديا جاۓ ليکن وہ جو بھی عمل اور سازش کرتا اس کا نتيجہ برعکس نکلتا اور دن بدن امام حسن(عليہ السلام) سے محبت کرنے والوں کي تعداد ميں اضافہ ہوتا گيا۔
ان سب باتوں کے پيش نظر معاويہ نے يہ فيصلہ کيا کہ کسی طرح سے لوگوں کی اس محبوب شخصيت سے چھٹکارا حاصل کيا جاۓ تاکہ اس کے خاندان کے ديگر افراد جو معاويہ کی حکومت کے خلاف ہيں، وہ نااميد ہوجائيں اور يوں مقاصد کے حصول کے ليۓ معاويہ کی راہ ميں حائل و رکاوٹ کو دور کيا جاۓ۔
امام صادق(علیہ السلام) فرماتے ہیں: جعدہ(لعنۃ اللہ علیہا) زہر لیکر گھر آئی، ان دنوں امام حسن(علیہ السلام) روزہ رکھ رہے تھے، گرمی کا موسم تھا، امام(علیہ السلام) نے افطار کے وقت چاہا کہ تھوڑا دودھ پی لیں، اس ملعونہ نے دودھ میں زہر ملاکر رکھا تھا امام(علیہ السلام) کا ایک گھونٹ پینا تھا کہ آپ نے ایک بلند آواز بلند کی: «عدوة الله! قتلتنی قتلک الله و الله لا تصیبن منی خلفا و لقد غرک و سخر منک و الله یخزیک و یخزیه[۱] اے خدا کی دشمن! تو نے مجھے قتل کیا، خدا تجھے قتل کردے، خدا کی قسم ميرے بعد تمہیں کوئی خوشی نہيں ملے گی، خدا کي قسم! معاويہ نے تمہيں بدبخت کيا اور اپنے ساتھ تمہيں بھي ذليل و خوار کيا».
امام صادق(عليہ السلام) نے مزيد فرمايا: جب جعدہ نے امام حسن(عليہ السلام) کو زہر ديا تو وہ دو روز سے زيادہ باقي نہ رہے اور اپنے معبود سے جا ملے اور معاويہ نے جو وعدہ کيا تھا اس نے وفا نہ کا–
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے:
[۱]۔ محمد باقرمجلسى، مرآة العقول في شرح أخبار آل الرسول،دار الكتب الإسلامية - تهران، ج۵، ص۲۵۵، ۱۴۰۴ق.
منبع: http://www.hawzah.net/fa/Magazine/View/4180/4184/26383
Add new comment