امام حسن(علیہ السلام) کے صلح کی اہم وجہ

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: امام حسن(علیہ السلام) کا دور پرآشوب دور تھا، آپ نے کئی وجہوں کی بناء پر صلح اختیار کی جن میں سب سے ایک، لوگوں کا جھاد کے لئے آمادہ نہ ہونا تھا۔

امام حسن(علیہ السلام) کے صلح کی اہم وجہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم
     خداوند عالم قرآن مجید میں ارشاد فرمارہا ہے: «وَ إِنْ جَنَحُوا لِلسّلْمِ فَاجْنَحْ لَها وَ تَوَکّلْ عَلَی اللّهِ إِنّهُ هُوَ السّمیعُ الْعَلیمُ[سورۂ انفال، آیت:۶۱] اور اگر وہ صلح کی طرف مائل ہوں تو تم بھی جھک جاؤ اور اللہ پر بھروسہ کرو کہ وہ سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے».
     اس آیت میں خداوند عالم رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اور تمام مسلمانوں سے خظاب کرتے ہوئے فرمارہا ہے کہ اگر دشمن، صلح کی جانب رغبت دکھائیں تو آپ بھی صلح کی طرف رغبت دکھائیں اور خدا پر توکل کریں، امام حسن(علیہ السلام) نے اسی آیت پر عمل کرتے ہوئے جب حالات کو اسلام کے مخالف دیکھا تو صلح اختیارکرلی۔
     امام حسن(علیہ السلام) کی صلح، تشیع کی تاریخ کا ایک بہت ہی اہم رخ ہےجو امام علی(علیہ السلام) کی شہادت کے بعدسن۴۰،ہجری میں رو نما ہوا، جب معاویہ نے یہ دیکھا کہ مسجد کوفہ میں مختلف قبیلوں کے لوگ آکر امام حسن(علیہ السلام) کی بیعت کررہے ہیں، وہ حیران اور پریشان ہوگیا اور اس نے اس حیرانی اور پریشانی سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے اپنے قریبی لوگوں کو مشورہ کے لئے بلوایا تاکہ اس حالت سے نجات پاسکے، مشورہ کے بعد ان لوگوں نے کچھ کام انجام دینے کا فیصلہ کیا جو حسب ذیل ہیں:
۔کوفہ میں ناامنی کا ماحول پیدا کرنا،
۔ کوفہ میں جاسوسوں کا بھیجنا،
۔امام حسن(علیہ السلام) کےسپاہیوں کو لالچ دینا جیسا کہ عبیداللہ ابن عباس اور قیس ابن سعد کودیا،
۔امام حسن(علیہ السلام) سے صلح کی افواہ پھیلانا،
۔اور اسی طرح کے دوسرے منصوبے،
     لوگوں کے ذہنوں میں امام حسن(علیہ السلام) کے بارے میں شک اور شبھہ پیدا کرنے اور ان کو آپ سے دور کرنے کے لئے معاویہ کے یہ اقدامات بہت زیادہ کارگر ثابت ہوئے، مثال کے طور پرمعاویہ نے امام حسن(علیہ السلام) سے صلح کے بارے میں جو افواہ پھیلائی تھی اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک دن کچھ لوگ مسجد کوفہ میں داخل ہوئے، اس وقت امام حسن(علیہ السلام) لوگوں کو جھاد کی طرف راغب کرتے ہوئے خطبہ ارشاد فرمارہے تھے، ان لوگوں نے افواہوں پر یقین کرتے ہوئے امام حسن(علیہ السلام) کو مجروح کردیا [۱] ۔
     امام حسن(علیہ السلام) کے زمانہ میں جو آپ کے لئے بہت بڑی مشکل تھی وہ  لوگوں کا جہاد کے لئے آمادہ نہ ہونا تھا۔ جب بھی امام(علیہ السلام) جنگ کے لئے کہتے، وہ لوگ کوئی نہ کوئی بہانہ بناکر چلے جاتے، اور دوسری جانب بعض قبیلوں کے سرپرست معاویہ سے خط اور خطوط کے ذریعہ معاویہ کو یہ لکھ رہے تھے کہ اگر جنگ ہوئی تو ہم تمھارا ساتھ دینگے اور امام(علیہ السلام) کی مخالفت کرینگے، اسی وجہ سے امام حسن(علیہ السلام) مجبور ہوگئے تھے کہ صلح کو ختیار کریں، حالانکہ امام(علیہ السلام) خود صلح کے  لئے راضی نہیں تھے لیکن لشکر کی خیانت نے امام(علیہ السلام) کو صلح کرنے پر مجبور کردیا جس کی واضح اور روشن دلیل یہ ہے خود امام(علیہ السلام) نےجھاد کے لئے سولہ ہزار کا لشکر تیار کیا اور جنگ کے لئے بھیجا لیکن ان سولہ ہزار میں سے بارہ ہزار افراد جنگ سے  ایک رات پہلے دشمن کے ساتھ جاملے، اس کے بعد امام حسن (علیہ السلام) نے فرمایا میں عراق کے کسی بھی فرد پر اعتماد نہیں کرسکتا، اگر ان لوگوں کو موقع ملا تو یہ لوگ مجھے گرفتار کرکے معاویہ کے حوالہ کردینگے [۲]۔
     ان ہی حالات کے پیش نظر امام حسن(علیہ السلام) نےصلح کو قبول کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے:
[۱] احمد زمانی، حقایق پنهان: پژوهشی از زندگانی سیاسی امام حسن مجتبی(ع)، قم، دفتر تبلیغات، ۱۳۷۸، ص۱۷۵ـ ۱۸۲.
[۲] رسول جعفریان، «نقش صلح امام حسن(ع) در اندیشه سیاسی شیعه»، رسالت، ۱۳۷۸، ص۸.

منبع: http://www.hawzah.net/fa/Magazine/View/3872/6749/80598

 

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
1 + 3 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 37