خلاصہ: دور حاضر میں اکثر نوجوان یہ سوال کرتے ہیں کہ آخر وہ کونسے اسباب تھے جن کی بناء پر امام حسن علیہ السلام نے معاویہ سے صلح کی تھی، مقالہ ھذا میں انہیں اسباب کو اقوال امام حسن علیہ السلام کی روشنی میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔
دور حاضر میں نئی نسل کا ہر جوان امام حسن علیہ السلام سے متعلق ایک سوال ضرور کرتا ہے وہ یہ کہ آپ نے معاویہ سے صلح کیوں کی؟ بعبارت دیگر معاویہ ایک ظالم تھا، اس کا باطن شرک و کفر سے لبریز تھا اور وہ گناہان کبیرہ میں ملوث تھا، ان تمام باتوں سے آپ بخوبی واقف تھے، دوسری جانب قرآن کی بہت سی آیات اور روایات اس بات پر شاہد ہیں کہ ظالم بادشاہ کا ساتھ دینا، اس کے ساتھ رواداری کرنا ظالم ہونے کے مترادف ہے، لہذا سوال یہ اٹھتا ہے کہ آپ وارث قرآن و عترت تھے پھر آپ نے معاویہ کے ساتھ صلح کیوں کی؟ آپ چاہتے تو اس کے ساتھ جنگ کرتے یہاں تک کہ شہید ہوجاتے۔ آخر وہ کونسے اسباب تھے جن کی وجہ سے آپ صلح کرنے پر مجبور ہوگئے؟ مذکورہ سوالوں کا جواب خود امام حسن علیہ السلام کے اقوال سے دیاجائے گا جو مندرجہ ذیل ہیں:
امام حسن علیہ السلام ایک مقام پر صلح کے معترض کو جواب دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:” وَ اللَّهِ مَا سَلَّمْتُ الْأَمْرَ إِلَيْهِ إِلَّا أَنِّي لَمْ أَجِدْ أَنْصَاراً وَ لَوْ وَجَدْتُ أَنْصَاراً لَقَاتَلْتُهُ لَيْلِي وَ نَهَارِي حَتَّى يَحْكُمَ اللَّهُ بَيْنِي وَ بَيْنَه“[۱] قسم ہے پالنے والے کی میں نے حکومت اس وجہ سے معاویہ کو سپرد کردی کہ میرا کوئی مددگار نہ تھا اور اگر میرے مددگار ہوتے تو اس کے خلاف شب و روز لڑتا حتی کہ خداوند متعال میرے اور اس کے درمیان فیصلہ کرتا۔
ایک مقام پر وھب جھنی نے سوال کیا کہ لوگ معاویہ سے جنگ اور صلح کے درمیان مشوش ہیں آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے؟ آپ نے فرمایا:” وَ اللَّهِ لَوْ قَاتَلْتُ مُعَاوِيَةَ لَأَخَذُوا بِعُنُقِي حَتَّى يَدْفَعُونِي إِلَيْهِ سِلْما[۲]“،خدا کی قسم اگر معاویہ سے جنگ کروں گا تو یہی لوگ مجھے اسیر بنا کر اسکے سامنے پیش کردیں گے۔
ایک مقام پر حجر ابن عدی کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:” اني رأيت هوا عظم الناس في الصلح و کرهوا الحرب فلم احب ان احملهم علي ما يکرهون فصالحت بقيا علي شيعتنا خاصه من القتل فرأيت دفع هذه الحروب الي يوم[۳] “ میں نے دیکھا کہ زیادہ تر لوگ صلح کی طرف راغب اور جنگ سے روگردان ہیں چنانچہ میں نے نہیں چاہا کہ انہیں ایسی چیز (جنگ) پر مجبور کروں جس کو وہ ناپسند کرتے ہیں، پس میں نے اسی کو مصلحت سمجھا کہ معاویہ کے ساتھ مسالمت آمیز رویہ اپناؤں اور اپنے اور اس کے درمیان جنگ کو بند کردوں؛ میں نے دیکھا کہ خون کا تحفظ خون بہانے سے بہتر ہے اور اس کام سے میرا ارادہ تمہاری خیر خواہی اور بقاء کے سوا کچھ نہ تھا۔
” يا حجر ليس كل الناس يحب ما تحب و لا رأيه كرأيك و ما فعلت إلا إبقاء عليك[۴]“ اے حجر جیسا تم چاہتے ہو لوگ ویسا نہیں چاہتے، میں نے یہ قدم تم جیسے شیعیوں کی حفاظت کے لئے اٹھایا ہے۔
کسی نے گستاخانہ لہجہ اختیار کرکے امام حسن مجتبی علیہ السلام سے کہا: (اے مؤمنوں کو ذلیل کرنے والے)، تو آپ نے فرمایا: میں نہیں ہوں بلکہ (مؤمنوں کو عزت دینے والا] ہوں؛ کیونکہ جب میں نے دیکھا کہ تم (پیروان آل محمد(ص)) میں سپاہ شام کا مقابلہ کرنے کی قوت نہیں ہے تو میں نے اپنی حکومت دے دی تاکہ ہم اور تم باقی رہیں: ” لست مذل المؤمنين ولکني معزهم. ما اردت بمصالحتي معاويه الا ان ادفع عنکم القتل عند ما رأيت من تباطيء اصحابي عن الحرب و نکولهم عن القتال“[۵] ایک مقام پر آپ صلح کے معترض کو جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میری صلح ویسی ہی ہے جیسے رسول کی صلح، حدیبیہ میں تھی بس فرق اتنا ہے کل جن سے صلح کی گئی تھی وہ تنزیل (قرآن)کے منکر تھے اور آج جن سے صلح ہورہی ہے وہ تاویل (تفسیر ) کے منکر ہیں۔[۶] اسکے بعد اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے فرماتے ہیں: ” وَ لَوْ لَا مَا أَتَيْتُ لَمَا تُرِكَ مِنْ شِيعَتِنَا عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ أَحَدٌ إِلَّا قُتِل“[۷] اگر میں یہ کام نہ کرتا تو روئے زمین پر ایک شیعہ بھی زندہ نہ رہتا اور یہ (معاویہ اور اس کے حامی) سب کو [چن چن کر] قتل کرتے۔
بعض نادان (صلح کی اہمیت سے بے خبر )لوگوں کی سرزنش کرتے ہوئے آپ ارشاد فرماتے ہیں: ” و يحکم ما تدرون ما عملت والله الذي عملت خير لشيعتي مما طلعت عليه الشمس او غربت[۸] “ تم لوگوں پر وائے ہو کہ، تمہیں کیا معلوم کہ میں نے کیا کیا ہے؟ خدا کی قسم میں نے جو کام انجام دیا ہے وہ ہمارے شیعیوں کے لئے ان پر سورج کے طلوع اور غروب ہونے سے بھی زیادہ بہترہے۔
امام حسن علیہ السلام کی تمام باتوں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ آپ مندرجہ ذیل دلائل کے تحت صلح کرنے پر مجبور ہوئے تھے۔
۱۔ آپ کی سب سے بڑی مجبوری عوام سے متعلق تھی وہ یہ کہ اکثر لوگوں کا جنگ سے اکتا جانا، ان کی حمایت کا نہ ملنا اور جو آپ کے ہمرکاب تھے بھی تو وہ فکری لحاظ سے پراکندہ تھے۔
۲۔ پہلی مجبوری کو مد نظر رکھتے ہوئے دوسری مجبوری جو در حقیقت پہلی مجبوری کا ہی نتیجہ ہے وہ یہ کہ آپ کا اصل ہدف، دین اسلام کا تحفظ تھا اور آپ کا یہ مقصد، صلح سے حاصل ہورہا تھا لہذا آپ نے دین کی حفاظت کے لئے مجبورا صلح کرلی۔ دوسری طرف جنگ سے آپ کے حقیقی شیعہ نیست و نابود ہوجاتے لہذا آپ نے اس صلح کے ذریعہ شیعوں کے تحفظ کا بھی سامان فراہم کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
[۱] الإحتجاج على أهل اللجاج( للطبرسي)ج۲، ص۲۹۰، طبرسى، احمد بن على، انتشارات نشر مرتضى، مشهد، ۱۴۰۲ ق، چاپ اول۔
[۲] بحار الانوار، ج۴۴، ص۲۰، مجلسى، محمد باقر بن محمد تقى،دار إحياء التراث العربي،بيروت، ۱۴۰۳ ق، چاپ دوم۔
[۳] شرح نهج البلاغة لابن أبي الحديد، ج۱۶، ص۱۵، ابن أبي الحديد، عبد الحميد بن هبة الله، انتشارات مكتبة آية الله المرعشي النجفي، قم،۱۴۰۴ ق، چاپ اول۔
[۴] شرح نهج البلاغة لابن أبي الحديد، ج۱۶، ص۱۵، ابن أبي الحديد، عبد الحميد بن هبة الله، انتشارات مكتبة آية الله المرعشي النجفي، قم،۱۴۰۴ ق، چاپ اول۔
[۵] علل الشرائع، ج۱، ص۲۱۲، ابن بابويه، محمد بن على، انتشارات كتاب فروشى داورى، قم، ۱۳۸۵ ش / ۱۹۶۶ م، چاپ اول۔
[۶] بحار الانوار، ج۴۴، ص۱۱۵، مجلسى، محمد باقر بن محمد تقى،دار إحياء التراث العربي،بيروت، ۱۴۰۳ ق، چاپ دوم۔
[۷] علل الشرائع، ج۱، ص۲۱۱، ابن بابويه، محمد بن على، انتشارات كتاب فروشى داورى، قم، ۱۳۸۵ ش / ۱۹۶۶ م، چاپ اول۔
[۸] إعلام الورى بأعلام الهدى،ج۲، ص۲۳۰، طبرسى، فضل بن حسن، انتشارات آل البيت، قم، ۱۴۱۷ ق، چاپ اول۔
Add new comment