خلاصہ:اس مضمون میں، امام حسن (علیہ السلام) نے قرآن کو مختلف اعتبار سے جو پہجنوایا ہے اس کو ٘مختصر طر پر بیان کیا گیا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
قرآن نے بہت زیادہ آیات میں اپنی منزلت اور اہمیت کو بتایا ہے تاکہ قرآن سے منحرف ہونے کے لئےکسی کے پاس کوئی حجت باقی نہ رہ جائے اور جو کوئی قرآن کی تلاوت کرے وہ معرفت کے ساتھ کرسکے، اہل بیت(علیہم السلام)، جو قرآن کی حقیقیت کو جاننے والے ہیں وہ قرآن کی منزلت کو زیادہ بہتر سمجھتے ہیں اسی لئے ہم کو اگر قرآن کو سمجھنا ہے تو ضروری ہے کہ ہم اپنے آپ کو اہل بیت(علیہم السلام) کے دامن سے متصل کریں، اسی غرض کے تحت قرآن کے بارے میں جو امام حسن(علیہ السلام) کے ارشادات ہیں، ان میں سے بعض کو اس مضمون میں بیان کیا جارہا ہے:
قرآن ہدایت ہے
« مَا بَقِيَ فِي الدُّنْيَا بَقِيَّةٌ غَيْرُ هَذَا الْقُرْآنِ فَاتَّخِذُوهُ إِمَاماً يَدُلَّكُمْ عَلَى هُدَاكُمْ وَ إِنَّ أَحَقَّ النَّاسِ بِالْقُرْآنِ مَنْ عَمِلَ بِهِ وَ إِنْ لَمْ يَحْفَظْهُ وَ أَبْعَدَهُمْ مِنْهُ مَنْ لَمْ يَعْمَلْ بِهِ وَ إِنْ كَانَ يَقْرَؤُه[۱] دنیا میں قرآن کے علاوہ کچھ بھی باقی نہیں رہا اسی لئے اس کو اپنا امام قرار دو تاکہ وہ تمھاری ہدایت کرے، لوگوں میں سب سے زیادہ قرآن کا مستحق(قرآن سے قریب) وہ ہے جو قرآن پر عمل کرے اگرچہ اس کو حفظ نہ کرتا ہو، اور قرآن سے سب سے زیادہ دور وہ ہے جو اس پر عمل نہ کرے اگر چہ اس کی تلاوت کرتا ہو»۔
اس حدیث میں امام حسن(علیہ السلام) یہ فرمارہے ہیں کہ قرآن کو اپنی عملی زندگی میں اپناؤ اور اس کے بتائے ہوئے راستے پر چلو۔
قرآن شفا ہے سینوں کے لئے
«أَنَّ هَذَا الْقُرْآنَ فِيهِ مَصَابِيحُ النُّورِ وَ شِفَاءُ الصُّدُورِ فَإِنَّ التَّفْكِيرَ حَيَاةُ الْقَلْبِ الْبَصِيرِ كَمَا يَمْشِي الْمُسْتَنِيرُ فِي الظُّلُمَاتِ بِالنُّورِ[۲] اس قرآن میں نور کے چراغ اور سینوں کے لئے شفا ہے، (سالک کو چاہئے کے اس کے نور کے ذریعہ راستہ کو طے کرے اور اپنے دل کو اس کے ذریعہ روکے(لگام دے)، کیونکہ یہ) سوچنا، بابصیرت شخص کے دل کی حیات ہے جس طرح راستہ چلنے والا، تاریکی میں نور سے روشنی کسب کرتا ہے».
قرآن قیامت میں
« إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ يَجِيءُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ قَائِداً وَ سَائِقاً يَقُودُ قَوْماً إِلَى الْجَنَّةِ أَحَلُّوا حَلَالَهُ وَ حَرَّمُوا حَرَامَهُ وَ آمَنُوا بِمُتَشَابِهِهِ وَ يَسُوقُ قَوْماً إِلَى النَّارِ ضَيَّعُوا حُدُودَهُ وَ أَحْكَامَهُ وَ اسْتَحَلُّوا مَحَارِمَه[۳] قرآن، قیامت کی دن اس حالت میں آئیگا کے وہ راہبر ہوگا، وہ لوگ جنھوں نے قرآن کے حلال کو حلال اور اس کے حرام کو حرام جانا اور اس کے متشابہات پر ایمان رکھا ان کو جنت کی طرف لے جائے گا اور وہ لوگ جنھوں نے قرآن کے احکام کو ضایع کردیا اور اس کے حرام کو حلال جانا ان کو جھنم میں پہنچائے گا۔
قرآن کی تلاوت کا ثواب
«مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ كَانَتْ لَهُ دَعْوَةٌ مُجَابَةٌ إِمَّا مُعَجَّلَةٌ وَ إِمَّا مُؤَجَّلَة [۴] جو کوئی قرآن کو پڑھیگا اس کی ایک دعا مقبول ہوگی جلدی یا دیر سے»۔
تفسیر بالرأی حرام ہے
«مَنْ قَالَ فِي الْقُرْآنِ بِرَأْيِهِ فَأَصَابَ فَقَدْ أَخْطَأَ[۵] جو کوئی قرآن کے بارے میں اپنی رائے ہیش کرے اگر چہ وہ حق ہو، اس نے گناہ کیا»۔
امام حسن(علیہ السلام) نے مختلف مقامات پر مختلف اعتبار سے قرآن کا تعارف کروایا اور اس کی اہمیت کو بتایا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ قرآن کی انسان کی زندگی میں کتنی اہمیت ہے اور وہ ہماری زندگی میں کہاں کہاں پر کام آسکتا ہے، اسی لئے ہم کو چاہئے کے ہم قرآن پر عملی طور پر عمل پیرا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے:
[۱]۔ حسن بن محمد ديلمى، إرشاد القلوب إلى الصواب(للديلمي)، الشريف الرضي - قم، ج۱، ص۷۹،۱۴۱۲ق.
[۲]۔ على بن عيسى اربلى، كشف الغمة في معرفة الأئمة، بنى هاشمى - تبريز،ج۱، ص۵۷۲، ۱۲۸۱ق.
[۳]۔ إرشاد القلوب إلى الصواب(للديلمي)،ج۱، ص۷۹۔
[۴]۔ محمد باقر مجلسى، بحار، دار إحياء التراث العربي، ج۸۹، ص۲۰۴، ۱۴۰۲ ق.
[۵]۔ محمد باقر مجلسى، بحار، ج۸۹، ص۱۸۳۔
Add new comment