خلاصہ: توابین کا قیام، ایک ایسا قیام ہے جو سلیمان ابن صرد خزاعی کی رہبری میں انجام پایا کیونکہ وہ کربلا میں امام حسین(علیہ السلام) پر اپنی جان قربان کرنے میں کامیاب نہ رہے اسی لئے کربلا کے درد ناک واقعہ کے بعد ان لوگوں نے یہ عھد کرلیا کہ یا ہم امام حسین(علیہ السلام) کےقاتلوں کو قتل کردینگے یا مرجائینگے اور اس طرح خدا کی رضا کو حاصل کرینگے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
توابین کا قیام شیعوں کے حق میں کارساز رہا کیونکہ یہ قیام سبب بنا دوسرے قیاموں کے وجود میں آنے کا اور اس قیام کے ذریعہ لوگوں کے دلوں میں امویوں کا جو خوف تھا وہ ختم ہوگیا تھا، توابین کا مقصد بھی مقدس تھا، ظالموں کا خاتمہ اور اولاد رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے ہاتھوں میں حکومت کو سونپ دینا۔
اگر ہمیں یہ معلوم کرنا ہے کہ امام سجاد(علیہ السلام) اس قیام سے راضی تھے یا نہیں تو ہمارے لئے سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ ہم اس وقت کے سیاسی اور اجتماعی حالات کو نظر میں رکھیں اور یہ بھی دیکھیں کہ امام(علیہ السلام) کے ساتھ حکومتی کارندوں کا رویہ کیسا تھا اور اس بات کو بھی نظر میں رکھیں کہ اس وقت لوگوں کی فکری، سیاسی اور عقدیدتی حالت کس طرح کی تھی۔
امام سجاد(علیہ السلام) ان حالات میں امامت کے عھدہ پر فائز ہوئے جب آپ پر غم و آلام کے پہاڑ ٹوٹے ہوئے تھے، امام(علیہ السلام) روحی، قلبی اور جسمی اعتبار سے زخمی تھے، اس وقت کا موحول ایسا تھا کہ جس میں کسی کو اعتراض کرنے کا حق بھی نہیں تھا، اگر کوئی اعتراض کرتا تو بیت المال کا حصہ اس شھر سے قطع کردیا جاتا[۱]۔
اور دوسری طرف امام(علیہ السلا٘م) کا لوگوں پر اعتماد، امام سجاد(علیہ السلام) ان لوگوں پر کس طرح اعتماد کرسکتے تھے جن لوگوں نے آپ کے جدّ امیرالمؤمنین حضرت علی(علیہ السلام) اور آپ کے چچا امام حسن(علیہ السلام) اور آپ کے والد بزرگوار امام حسین(علیہ السلام) کے ساتھ بے وفائی اور وعدہ خلافیاں کی تھیں اور امام(علیہ السلام) خود اس بات کے شاہد تھے کے کس طرح یہ لوگ اپنے امام کو یک و تنھا چھوڑ کر یا خاموش ہوجاتے تھے یا اس سے بدتر، دشمنوں سے جاملتے تھے، جس طرح امام حسین(علیہ السلام) کے ساتھ کیا۔
کوفہ میں امام سجاد(علیہ السلام) کے ایک خطبہ کے بعد لوگوں نے امام سجاد(علیہ السلام) کا ساتھ دینے کا وعدہ کیا اور آپ کی اطاعت کرنے کا یقین دلوایا، امام(علیہ السلام) نے ان لوگوں کو جواب میں فرمایا: میں تم لوگوں پر ہرگز اعتماد نہیں کرسکتا، کیا تم لوگ یہ چاہنے ہو کہ جس طرح کا سلوک تم لوگوں نے میرے اجداد کے ساتھ کیا، میرے ساتھ بھی اسی کردار کو پیش کرو، تم لوگوں نے جو زخم دئے وہ ابھی تک نہیں بھرے۔[۲]۔
امام سجاد(علیہ السلام) نے توابین کے بارے میں اپنے کسی موقف کا اظھار نہیں کیا، نہ انکی تأئید میں اور نہ ہی رد میں لیکن اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ چونکہ توابین نے ظلم کے خاتمہ اور عدالت کو برپا کرنے کے لئے آواز اٹھائی تھی اسی لئے امام(علیہ السلام) ان کے اس قیام سے راضی تھے اور تاریخ میں کسی جگہ پر بھی یہ نہیں ملتا کہ امام سجاد(علیہ السلام) ان کے قیام سے راضی نہیں تھے اور امام(علیہ السلام) کا اس قیام سے راضی نہ رہنے کی بھی کوئی دلیل نہیں ملتی بلکہ اس قیام کے ذریعہ شیعوں کو فائدے حاصل ہوئے۔
روایت میں ہے: امام سجاد(علیہ السلام) نے اپنے چجا محمد حنفیہ سے فرمایا: « يا عم لو أن عبدا زنجيا تعصب لنا أهل البيت لوجب على الناس موازرته[۳] اگر کوئی سیاہ غلام بھی ہمارے حق کے لئے قیام کرے تو لوگوں پر واجب ہے کہ اس کی مدد کریں»۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے:
[۱] فروخ عمر، تاریخ الادب العربی، دارالعلم للملایین، ج۲، ص۳۴۷.
[۲] ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغه، مکتبۃ آیۃ مرعشی، ج۴۔
[۳] محمد باقر مجلسى، بحار الأنوار، دار إحياء التراث العربي - بيروت، دوسری چاپ، ج۵، ص، ۲۶۵، ۱۴۰۲ ق.
منبع: http://rasekhoon.net/forum/thread/1203334/page1/
Add new comment