خلاصہ: ماہ رمضان کے کچھ فضائل قرآن کریم نے بتائے ہیں اور کچھ فضائل اہل بیت (علیہم السلام) کی لسان اطہر سے بیان ہوئے ہیں، ان میں سے ایک، حضرت امام سجاد (علیہ السلام) ہیں جنہوں نے اس ماہ کے فضائل بیان کئے ہیں، جن میں سے ہم نے چند فقروں کو نقل کرتے ہوئے، ان کی مختصر تشریح کی ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ماہ رمضان کی اہل بیت (علیہم السلام) نے مختلف الفاظ میں تعریف اور تمجید کی ہے، اس کے فضائل بیان کئے ہیں اور لوگوں کو اس کی اہمیت بتلائی ہے تا کہ لوگ اس کے مقام کا ادراک کرتے ہوئے اس کے فیوضات کو حاصل کرسکیں، ان حضرات میں سے ایک، حضرت امام سید الساجدین زین العابدین (علیہ السلام) ہیں۔ آپؑ ماہ رمضان کی دعائے وداع میں اللہ تعالی کی بارگاہ میں ماہ رمضان کے فضائل کے سلسلے میں عرض کرتے ہیں: "اللَّهُمَّ وَ أَنْتَ جَعَلْتَ مِنْ صَفَایَا تِلْکَ الْوَظَائِفِ، وَ خَصَائِصِ تِلْکَ الْفُرُوضِ شَهْرَ رَمَضَانَ الَّذِی اخْتَصَصْتَهُ مِنْ سَائِرِ الشُّهُورِ، وَ تَخَیَّرْتَهُ مِنْ جَمِیعِ الْأَزْمِنَةِ وَ الدُّهُورِ، وَ آثَرْتَهُ عَلَى کُلِّ أَوْقَاتِ السَّنَةِ بِمَا أَنْزَلْتَ فِیهِ مِنَ الْقُرْآنِ وَ النُّورِ، وَ ضَاعَفْتَ فِیهِ مِنَ الْإِیمَانِ، وَ فَرَضْتَ فِیهِ مِنَ الصِّیَامِ، وَ رَغَّبْتَ فِیهِ مِنَ الْقِیَامِ، وَ أَجْلَلْتَ فِیهِ مِنْ لَیْلَةِ الْقَدْرِ الَّتِی هِیَ خَیْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْر"[1]، "بارالہا! تو نے ان منتخب فرائض اور مخصوص واجبات میں سے ماہِ رمضان کو قرار دیا ہے جسے تو نے تمام مہینوں میں امتیاز بخشا اور تمام وقتوں میں اسے منتخب فرمایا ہے اور اس میں قرآن اور نور کو نازل فرما کر اور ایمان کو فروغ دے کر اسے سال کے تمام اوقات پر فضیلت دی اور اس میں روزے واجب کئے اور نمازوں کی ترغیب دی اور اس میں شب قدر کو بزرگی بخشی جو خود ہزار مہینوں سے بہتر ہے"۔
ان فقروں میں آپؑ فرماتے ہیں: "… ماہ رمضان جسے تو نے تمام مہینوں میں امتیاز بخشا"۔
تشریح: متعدد روایات میں ماہ رمضان کو دیگر مہینوں کا "سید" کہا گیا ہے، جیسا کہ رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا: "وَ هُوَ سَيِّدُ الشُّهُور"[2]، "اور ماہ رمضان مہینوں کا سید ہے"۔
نیز حضرت امیرالمومنین علی (علیہ السلام) نے ماہ رمضان کے پہلے دن مسجد کوفہ میں جو خطبہ ارشاد فرمایا، اس میں اللہ تعالی کی حمد و ثنا اور پیغمبر اکرمؐ پر صلوات کے بعد فرمایا: "أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ هَذَا الشَّهْرَ شَهْرٌ فَضَّلَهُ اللَّهُ عَلَى سَائِرِ الشُّهُورِ كَفَضْلِنَا أَهْلَ الْبَيْتِ عَلَى سَائِرِ النَّاس"[3]، "اے لوگو! یقیناً یہ مہینہ، ایسا مہینہ ہے جسے اللہ نے دیگر مہینوں پر فضیلت دی ہے جیسے ہم اہل بیتؑ کی دیگر لوگوں پر فضیلت ہے"،
اس خطبہ کے کچھ حصہ کے بعد خطبہ کے دوران ایک ہمدانی آدمی نے دریافت کیا کہ یا امیرالمومنینؑ! ہمیں مزید بتائیے ان باتوں میں سے جو سید الاولین و الآخرین نے اس مہینہ کے بارے میں آپؑ سے فرمایا، تو آپؑ نے فرمایا: "نَعَمْ سَمِعْتُ أَفْضَلَ الْأَنْبِيَاءِ وَ الْمُرْسَلِينَ وَ الْمَلَائِكَةِ الْمُقَرَّبِينَ يَقُولُ إِنَّ سَيِّدَ الْوَصِيِّينَ يُقْتَلُ فِي سَيِّدِ الشُّهُورِ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَ مَا سَيِّدُ الشُّهُورِ وَ مَنْ سَيِّدُ الْوَصِيِّينَ قَالَ أَمَّا سَيِّدُ الشُّهُورِ فَشَهْرُ رَمَضَانَ وَ أَمَّا سَيِّدُ الْوَصِيِّينَ فَأَنْتَ يَا عَلِيُّ " ہاں میں نے انبیاء، مرسلین اور مقرّب فرشتوں سے افضل (پیغمبرؐ) سے سنا کہ آپ فرماتے تھے: بیشک اوصیاء کا سید مہینوں کے سید میں شہید کیا جائے گا، تو میں نے عرض کیا: یا رسول اللہؐ! مہینوں کا سید کون ہے اور اوصیاء کا سید کون ہے۔ آنحضرتؐ نے فرمایا: مہینوں کا سید ماہ رمضان ہے اور اوصیاء کا سید آپ ہیں یا علیؑ"۔
شیخ مفید علیہ الرحمۃ نے اصبغ بن نباتہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا کہ حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) نے ہمارے لئے خطبہ ارشاد فرمایا اس مہینہ میں جس میں آپؑ شہید ہوئے تو فرمایا: "َ أَتَاكُمْ شَهْرُ رَمَضَانَ وَ هُوَ سَيِّدُ الشُّهُور"[4] تم تک ماہ رمضان آگیا اور وہ مہینوں کا سید ہے"۔
پھر حضرت امام سیدالساجدین (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "اور اس میں روزے واجب کئے"۔
تشریح: ماہ رمضان میں اللہ تعالی نے جو روزے واجب کئے ہیں اس کے بارے میں قرآن کریم فرماتا ہے: "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ"[5]، "صاحبانِ ایمان تمہارے اوپر روزے اسی طرح لکھ دیئے گئے ہیں جس طرح تمہارے پہلے والوں پر لکھے گئے تھے شاید تم اسی طرح متقی بن جاؤ"۔
اس آیہ کریمہ کی روشنی میں واضح ہوتا ہے کہ روزہ رکھنے کا مقصد تقوا اختیار کرنا ہے۔
اہل بیت (علیہم السلام) نے روزہ کے واجب ہونے کی مختلف وجوہات بیان فرمائی ہیں، بعض روایات میں اخلاص کو آزمانا[6] اور مضبوط کرنا[7]، بعض میں غریبوں کی امداد کرنا اور دیگر بعض میں قیامت کے دن کی بھوک اور پیاس کو یاد کرنا[8]، ذکر ہوا ہے۔
پھر حضرت امام سجاد (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "اور نمازوں کی ترغیب دی"۔
تشریح: آپؑ دعائے استقبال ماہ رمضان میں فرماتے ہیں: "و شَهرَ القِیَامِ"[9]، "عبادت و قیام کا مہینہ"، مرحوم فیض الاسلام اس جملہ کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں: "یہ جو ماہ رمضان کو ماہ قیام کہا گیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ مستحب نمازیں اس مہینہ کی راتوں میں بہت پڑھی جاتی ہیں اور ان مستحب نمازوں کے علاوہ جو ہر رات پڑھنی چاہئیں، روایات میں مشہور، جیسا کہ بہت سارے علماء نے فرمایا ہے: اس مہینہ کی راتوں میں ہزار رکعت نماز پڑھنا مستحب ہے۔[10]
اس کے بعد امام زین العابدین (علیہ السلام) فرماتے ہیں: " اور اس میں شب قدر کو بزرگی بخشی جو خود ہزار مہینوں سے بہتر ہے"۔
تشریح: علامہ سید جواد مصطفوی شرح اصول کافی میں شب قدر کی وضاحت کرتے ہوئے علامہ طبرسی سے نقل کرتے ہیں کہ "اس رات کو شب قدر کہا گیا ہے کیونکہ جو اس سال میں واقع ہونا ہے اللہ اس رات میں مقدر کرتا ہے اور حکم دیتا ہے اور کہا گیا ہے: اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ رات مبارک ہے اور اس رات میں خیر، برکت اور مغفرت نازل ہوتی ہے، لہذا اس کی قدر اور منزلت ہے، نیز کہا گیا ہے: اس کی وجہ یہ ہے کہ اس رات میں طاعات اور عبادات کا بہت ثواب ہے۔[11]
حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے دریافت کیا گیا کہ کیسے شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے؟ امامؑ نے فرمایا: "الْعَمَلُ الصَّالِحُ فِيهَا خَيْرٌ مِنَ الْعَمَلِ فِي أَلْفِ شَهْرٍ لَيْسَ فِيهَا لَيْلَةُ الْقَدْر"[12]، "اس رات میں عمل صالح انجام دینا، ان ہزار مہینوں میں انجام دینے سے بہتر ہے جن میں شب قدر نہیں ہے"۔
نتیجہ: حضرت امام سجاد (علیہ السلام) نے جو ماہ رمضان کی تعریف فرمائی ہے جس کے یہاں پر صرف چند فقرے بیان ہوئے، ان سے معلوم ہوجاتا ہے کہ اس مہینہ کو اللہ تعالی نے خاص عطمت دی ہے اور ہمیں چاہیے کہ اس کے عظیم مقام کو مدنظر رکھتے ہوئے، پوری طاقت کے ساتھ کوشش کریں کہ اس کی برکات سے اپنے دامن کو بھرلیں اور روزہ رکھنے سے اللہ تعالی نے جو مقصد بیان کیا ہے اس مقصد تک پہنچنے کے لئے خالصانہ محنت کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] صحیفہ کاملہ، دعا 45، دعائے وداع ماہ رمضان۔
[2]الكافي (ط - الإسلامية)، ج4، ص: 67۔
[3] فضائل الأشهر الثلاثة، ص: 107۔
[4]الإرشاد في معرفة حجج الله على العباد، ج1، ص: 14۔
[5] سوره بقره، آيت 183.
[6] میزان الحکمہ، ری شہری، ج6، ص389۔
[7] میزان الحکمہ، ری شہری، ج6، ص390۔
[8] وسائل الشيعه، ج 4، ص 4، ح 5؛ علل الشرايع، ص 10۔
[9] صحیفہ کاملہ، دعا 44، دعائے استقبال ماہ رمضان۔
[10]الصحيفة السجادية، ترجمه و شرح فيض الإسلام، ص: 284۔
[11]أصول الكافي، ترجمه مصطفوى، ج1، ص: 362۔
[12]من لا يحضره الفقيه، ج2، ص: 158، ح2025۔
Add new comment