چہلم کا مقصد

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: اس مضومن میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ ہم جو چہلم مناتے ہیں اس کا مقصد کیا ہے ہم چھلم کیوں مناتے ہیں۔

چہلم کا مقصد

بسم اللہ الرحمن الرحیم
     امام حسین(علیہ السلام) اور ان کے اعزہ اور اصحاب کی مظلومانہ شہادت اور اس کے بعد اہل حرم اور بچوں کی اسیری اور کوفہ و شام کے درباروں اور بازاروں میں چالیس دن پورے ہوجانے کی یادوں میں پورا عالم اسلام بیس صفر المظفر کو ہرسال امام مظلوم کا چہلم یا چالیسواں مناتا ہے۔
    یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چہلم کی اہمیت کس وجہ سے ہے؟ کیا صرف اس لئے کہ امام حسین(علیہ السلام) کی شہادت کے چالیس دن گذر چکے ہیں؟  آخر اس کی کیا خاصیت ہے؟
     اس کا جواب یہ دیا جا سکتا ہے کہ: اس دن سید الشہداء کی شہادت کی یاد تازہ ہوئی اور یہ بہت اہم چیز ہے ۔
     فرض کیجیے اگر تاریخ میں یہ عظیم واقعہ رونما ہوتا یعنی حسین ابن علی(علیہما السلام) اور ان کے باوفا ساتھیوں کی شہادت ہوجاتی اور بنی امیہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاتے یعنی جس طرح انہوں نے امام عالی مقام اور ان کے ساتہیوں کو خاک و خون میں غلطاں کیا اسی طرح اس وقت کے لوگوں اور آنے والی نسلوں کے ذہنوں سے ان کی یاد بھی مٹا دیتے تو کیا ایسی صورت میں اتنی عظیم قربانیوں اور شہادت کا اسلام کو کوئی فائدہ پہنچتا؟
     یا یہ فرض کریں کہ اس وقت اس کا ایک اثر ہوتا لیکن کیا آنے والی نسلوں پر اس کا کوئی خاص اثر ہوتا ؟
     ایک قوم کی مظلومیت اس وقت دوسری ستمدیدہ زخمی اقوام کے لئے مرہم بن سکتی ہے جب یہ مظلومیت ایک فریاد بن جائے۔ اس مظلومیت کی آواز دوسرے لوگوں کے کانوں تک بھی پہنچے۔
     یہی وجہ ہے کہ آج بڑی طاقتیں ایک آواز پر دوسری آواز بلند کرتی ہیں تاکہ ہماری فریاد بلند نہ ہونے پائے ۔ اسی لئے وہ بےتھاشا پیسہ خرچ کر رہے ہیں تاکہ جو بھی  جتنا بھی خرچ ہو کسی بھی طرح سے حسین(علیہ السلام) کا نام ان کی یاد ان کی شہادت اور کربلا و عاشورا لوگوں کے لئے درس نہ بننے پائے اور اس کی گونج دوسری اقوام کے کانوں تک نہ پہنچے۔
     یہاں تک کہ بنی عباس کے دوران حکومت میں امام(علیہ السلام) کی قبر کو منہدم کیا گیا، اسے پانی سے گھیر دیا گیا تاکہ اس کا کوئی نام و نشان باقی نہ رہے۔
    شہادت اس وقت تک اپنا اثر نہیں دکہاتی جب تک اسے زندہ نہ رکھا  جائے اس کی یاد نہ منائی جائے اور اس کے خون میں جوش نہ پیدا ہو اور چہلم وہ دن ہے جب پیغام حسینی کو زندہ رکہنے کا پرچم لہرایا گیا اور وہ دن ہے جب شہداء کی بقا کا اعلان ہوا، چہلم وہ دن ہے جب پہلی بار امام حسین کے زائر ان کی زیارت کو آئے۔ پیغمبر اسلام اور مولائے کائنات کے اصحاب میں سے جابر ابن عبد اللہ انصاری اور عطیہ آئے امام کی زیارت کے لئے۔ جابر اگرچہ نابینا تھے  لیکن عطیہ کا ہاتھ پکڑ کر امام حسین(علیہ السلام) کی قبر  پر آئے اور زار و قطار رونے لگے۔ امام حسین(علیہ السلام) سے گفتگو کی، درد دل بیان کیا، امام حسین(علیہ السلام) کی یاد کو زندہ کیا اور زیارت قبور شہدا کی سنت کا احیاء کیا، ایسا اہم دن ہے چہلم کا دن۔
    امام حسین(علیہ السلام) اور شہداء کربلا چہلم سوئی ہوئی قوموں کو جگانے کا بہترین ذریعہ جس کے بارے میں شاعر نے بھی کیا خوب کہا ہے: 
    انسان کو بیدار تو ہولینے دو                ہر قوم پکاریگی ہمارے ہیں حسین
     چھلم رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے  امام حسین(علیہ ا لسلام)کے بارے میں جو فرمایا: « َ إِنَ‏ لِقَتْلِ‏ الْحُسَيْنِ‏ حَرَارَةً فِي‏ قُلُوبِ‏ الْمُؤْمِنِينَ‏ لَا تَبْرُدُ أَب»[۱] کی ترجمانی کررہا ہے کے ہر مؤمن کے دل میں امام حسین(علیہ السلام) کے قتل کی حرارت پائی جائیگی جو حرارت کبھی  بھی ٹہندی نہیں ہوگی، چہلم کے موقع پر مؤمنین کا یہ عظیم اجتماع  واضح طور پر بتارہا ہے کہ ہر مؤمن کے دل میں امام حسین(علیہ السلام) کے محبت پائی جاتی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔                             
حوالہ:
[۱]۔ حسين بن محمد تقى نورى، مستدرك الوسائل و مستنبط المسائل، مؤسسة آل البيت عليهم السلام - قم، ج۱، ص۲۱۸،۱۴۰۸ق.

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
8 + 1 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 78