چکیده:روز عاشورا سنہ 61 ہجری کو مرسل اعظم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کے پیارے نواسے حضرت امام حسین علیہ السلام اور ان کے اعزہ و اصحاب کی مظلومانہ شہادت اور اس کے بعد خاندان رسول اکرم (ص) کی عورتوں اور بچوں کی اسیری اور کوفہ و شام کے درباروں اور بازاروں میں تشہیر کے چالیس دن پورے ہوجانے کی یادوں میں پورا عالم اسلام بیس صفر المظفر کو ہرسال امام مظلوم کا چہلم یا چالیسواں مناتا ہے۔
چہلم (اربعین) کے بارے میں جوکچھ ہماری دینی ثقافت میں آیا ہے ، وہ حضرت سید الشھدا علیہ السلام کی شہادت کا چھلم ہے جو صفر کی بیسویں تاریخ کو ہوتاہے۔ امام حسن عسکری علیہ السلام نے ایک حدیث میں "مومن" کےلئے پانچ علامتوں کا ذکر کیا ہے : اکیاون رکعت نماز ادا کرنا ، زیارت اربعین پڑھنا، انگوٹھی کو دائیں ہاتھ میں پہننا ، نماز میں پیشانی کو خاک پر رکھنا ، اور نماز میں "بسم اللہ" کو بلند آواز میں پڑھنا۔[1]
اس کے علاوہ مورخین نے لکھا ہے کہ حضرت جابر ابن عبد اللہ انصاری ، عطیہ عوفی کے ھمراہ، عاشورا کے بعد امام حسین علیہ السلام کے پہلے اربعین پر امام کی زیارت کیلئے تشریف لے آئے.[2]
سید ابن طاووس نقل کرتے ہیں کہ: جب امام حسین (ع )کے اھل بیت علیھم السلام قید سے رھائی کے بعد شام سے واپس لوٹے، تو عراق پہونچے انہوں نے اپنے راھنما سے کہا، : ہمیں کربلا کے راستے سے لے چلو، جب وہ امام حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب کے مقتل میں پہنچے ، تو جابر ابن عبد اللہ انصاری کو بنی ھاشم کے بعض لوگوں کے ساتھ ، اور آل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کے ایک مرد کو دیکھا جو امام حسین (ع) کی زیارت کےلئے آئے تھے، وہ سب ایک ہی وقت میں مقتل پر پھنچے اور سب نے ایک دوسرے کو دیکھ کر گریہ اور اظہار حزن کیا اور سروں اور چہروں کو پیٹنا شروع کیا اور ایک ایسی مجلس عزا برپا کی جو دلخراش اور جگرسوز تھی۔ اس علاقے کی عورتیں بھی ان سے ملحق ہوئیں، اور کئی دنوں تک انہوں نے عزاداری کی۔[3]
عاشورا سے اربعین تک چالیس دن، محمد (ص) و آل محمد (ص) کے عزاداروں کے لئے یکم ذیقعدہ سے دہم ذی الحجۃ تک چلہ کش حاجیوں کے شامل حال الہی فیوض و برکات کی فراوانیوں کی مانند ہے جس طرح حضرت موسی (ع) نے چالیس شبانہ روز خواب و خور کے بغیر الہی میہمانی میں گزارے اور چالیسویں دن تورات سے نوازے گئے مرسل اعظم (ص) اور ان کے خاندان مکرم (ع) کی محبت و معرفت سے سرشار حسینی سوگواروں کو جو چالیس شبانہ روز خواب و خور سے بے پروا کربلا کے شہیدوں اور کوفہ و شام کے اسیروں کے غم میں گریہ کناں دختر رسول (ص) کی میہمانی میں رہتے ہیں چالیسویں دن عالم بشریت کے لئے راہ نجات کی نشان دہی کرنے والی وہ کتاب حیات مل جاتی ہے جس کی تحریریں قلب عشق و مودت پر نقش ہوجاتی ہیں اور انسان کو اسلام و قرآن کے مطابق جینے اور مرنے کا سلیقہ آجاتا ہے ۔
راہ حق و صداقت میں پیش کی جانے والی بہترین قربانیوں کے چالیس دنوں بعد شہداء کے وارثین سید سجاد امام زين العابدین ، باقرالعلوم امام محمد باقر اور ثانی زہرا حضرت زینب علیا مقام علیہم الصلوۃ و السلام کی قیادت میں کربلا سے کوفہ اور کوفے سے شام تک اسیری کی سخت ترین منزلوں سے گزر کر ظالم و جابر سفاک و خونخوار کوفیوں اور شامیوں کے قلب و دماغ تسخیر کرکے آج ہی کے دن دوبارہ سرزمین کربلا پر وارد ہوئے ہیں اور تمام عزیزوں ، دوستوں اور وارثوں نے مل کر شہدائے کربلا کا چہلم منایا ہے۔
السّلام علی الحسین المظلوم الشّہید ، السّلام علی اسیر الکربات و قتیل العبرات "
سید ابن طاؤس علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب " مقتل " میں لکھا ہے:
جس وقت امام حسین (ع) کے اہلبیت (ع) شام سے چھوٹ کر مدینہ کی طرف واپس جارہے تھے ، انہوں نے اموی سالار کارواں سے خواہش کی کہ ان کو کربلا کی طرف سے لے چلیں تا کہ وہ جاتے جاتے شہدائے کربلا کی زیارت کرسکیں چنانچہ جس وقت وہ نواسۂ رسول کی تربت پاک پر پہنچتے ہیں پیغمبر اسلام (ص) کے بوڑھے صحابی جابرابن عبداللہ انصاری وہاں موجود تھے ۔
جناب جابر کے رفیق عطیۂ عوفی کا بیان ہے کہ قبر حسین (ع) پر پہنچکر جابر نے تین مرتبہ فرمایا یا حسین (ع) یا حسین (ع) یا حسین (ع) اور پھر درد بھرے لہجے میں کہا: ‘‘احبیب لا یجیب حبیبہ‘‘ کیا دوست اپنے دوست کو جواب نہیں دے گا اور پھر خود ہی کہنے لگے : ہاں ، آپ کیسے جواب دیں گے آپ کی رگ گردن تو خون سے رنگین ہے اور سر و تن میں جدائی ہوچکی ہے ! اے حسین(ع) آپ پر میرا سلام ہو میں گواہی دیتا ہوں آپ فخر انبیاء (ع) رسول خدا (ص) کے فرزند، امام المتقین امیر المؤمنین (ع) کے دلبند اور سیدۂ نساء العالمین (ع) کے پارۂ دل ہیں آپ نے پاکیزہ زندگی گزاری پاکیزہ موت قبول کی لیکن مومنین کے قلب کو فراق کی آگ میں جلنے کے لئے تنہا چھوڑدیا ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ زندہ ہیں آپ پر خدا کا درود و سلام ہو میں گواہی دیتا ہوں آپ کی شہادت کی داستان بھی حضرت یحیی (ع) ابن زکریا (ع) کی شہادت کی مانند ہے ۔ اور پھر چاروں طرف نظر دوڑائی اور فرمایا درود سلام ہو تم پر اے پاکیزہ روحو! تم نے امام حسین (ع) کے گرد جگہ پائي اور امام کے آستانۂ اقدس میں اپنی سواریاں بٹھائیں یہ کہکر جابر نے ایک آہ سرد کھینچی اور بیہوش ہوگئے اسی دوران نزدیک سے کسی قافلے کے اترنے کی آہٹ محسوس ہوئی جابر چونک کراٹھ پڑے جیسے کوئی کہہ رہا ہو: جابر ! اٹھو میرے پاس میری بہن آرہی ہے اس کا استقبال کرو ۔ رسول اسلام (ص) کے بوڑھے صحابی نے آگے بڑھ کر اہل حرم کا استقبال کیا ، آگے آگے امام زين العابدین اپنی پھوپھیوں ماؤں اور بہنوں کے ساتھ تشریف لارہے تھے ، جابر نے آگے بڑھ کر سید سجاد کو گلے سے لگالیا ، امام (ع) نے صحابی رسول (ص) سے فریاد کی :
ھھنا واللہ قتلت رجالنا و ذبحت اطفالنا و سبیت نسائنا و حرقت خیامنا "
دیکھئے یہی وہ جگہ ہے جہاں ہمارے مردوں کو قتل کردیا گيا بچوں کو ذبح کردیا گیا ، عورتوں کو قید کرلیا گيا اور خیموں کو جلا دیا گيا۔
ادھر ، آفتاب ڈھل رہا تھا اور حضرت زينب (ع) کی نگاہوں میں کربلا کی زمین اب بھی عصر عاشورا کی طرح خون سے رنگیں نظر آرہی تھی ، ہر طرف دل کے ٹکڑے بکھرے پڑے تھے ایک قتل گاہ میں بہتر جنازے ۔ ایک ایک منظر نگاہوں کے سامنے تھا آہ ، اس قوم جفاکار نے اصغر و اکبر کسی پر بھی رحم نہیں کیا ھوا و ھوس میں گرفتار یزیدیوں نے اس حسین (ع) کو بھوکا اور پیاسا ذبح کردیا جس کو رسول (ص) اپنا فرزند کہتے اور اپنی زبان چسایا کرتے تھے ۔ ان بہترین انسانوں کو قتل کرڈالا جن کا اہلبیت رسول (ص) کی حمایت و نصرت کے سوا کوئی قصور نہ تھا اور پھر علی (ع) کی بیٹی کو وہ مناظر بھی یاد آئے جو نواسۂ رسول (ص) کی شہادت کے بعد رونما ہوئے تھے ، خیام حسینی میں بھڑکتے ہوئے شعلے ، عابد (ع) بیمار کا جلا ہوا بستر ، بیبیوں اور بچیوں کے سروں سے چادروں کا چھینا جانا اور بچوں کی آہ و فریاد ، اسیری ، کوفہ ؤ شام کی طرف روانگي زینب (ع) کا دل درد و اندوہ میں ڈوب گيا اور انہوں نے اپنے بھائی کی قبر کا رخ کرکے فریاد کی ۔
شہدائے کربلا کی قبروں پر اہل حرم (ع) کی بیتابی ، ہر آنکھ کو رونے پر مجبور کئے دے رہی تھی تین دنوں تک کربلا کے میدان میں حضرت زینب (ع) اور سید سجاد (ع) کی معیت میں اہل حرم نے عزاداری کی اور رسول اسلام (ص) کے بزرگ صحابی جابر ابن عبداللہ انصاری امام زين العابدین(ع) کے ساتھ ساتھ رہے اور پھر تیسرے دن امام سجاد (ع) نے حکم دیا اونٹوں پر محملیں تیار ہوئیں اور خاندان رسول اسلام (ص) ، شہر مدینۂ منورہ کی طرف روانہ ہوگیا۔
" اے حسین علیہ السلام کی راہ پر چلنے اور ان کے ساتھ سفر کرنے والی روحو! ہمارا سلام قبول کرو"
امام حسین(ع) کی بیٹی فاطمہ کبری نے آواز دی:
اے کربلا ہم تیرے دامن میں وہ یادگار چھوڑ کر جارہے ہیں جو احمد مجتبی (ص) کی روح اور ان کا جانشیں ہے ۔
اے کربلا ہم تیری آغوش میں وہ بدن امانت کے طور پر چھوڑرہے ہيں جو پاک و مطہر ہے اور بے کسی کے عالم میں تجھ میں دفن ہوا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] مجلسی ، بحار الانوار ، ج ۹۸ ، ص ۳۲۹ ، بیروت ، "علامات المومن خمس: صلاۃ احدی و خمسین ، و زیارۃ الاربعین۔۔۔۔۔"
[2] طبری ، محمد بن علی، بشارۃ المصطفی، ص ۱۲۶ ، قم موسسہ النشر الاسلامی، چھاپ اول ، ۱۴۲۰ ھ۔
[3] بحار الانوار الجامعۃ لدرر اخبار الائمۃ الاطھار ج ۴۵ س ۱۴۶۔
Add new comment