چکیده:اس مقالہ میں امام حسن عسکری علیہ السلام کی علمی اور تربیتی کاوشوں کی طرف اجمالا نظر ڈالی گئی ہے۔
امام حسن عسکری علیہ السلام کے دور حیات کا اکثر حصہ عباسی دارالسلطنت سامرا میں نظربندی یا قید کی حالت میں گزرا مگر اس حالت میں آپ کی بلندکرداری اور سیرت بلند کے مظاہرات سے معاشرہ پر ایسا اثر ڈالا کہ آج بھی تاریخ انگشت بدنداں ہے۔
تاریخ میں ملتا ہے کہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی امامت کا دَور ایک سخت اور دشوار دور تھا جس میں گونا گون افکار اور عقائد، اسلامی معاشرے کیلئے خطرات بنے ہوئے تھے،تمام تر پیچیدگیوں کے باوجود امام علیہ السلام اپنے آباء و اجداد علیہم السلام کی طرح لحظہ بھر بھی مسائل سے غافل نہیں رہے اور اُٹھنے والی ہر مخالف آوازوں کا آپ مدلل موقف کے ساتھ جواب پیش فرماتے رہے۔
آپ کی زندگی کے کچھ کارنامے ایسے ہیں جو بنیادی اور اساسی ہیں اور جنھیں انجام دینا عام انسان کے لئے مشکل ہی نہیں نا ممکن تھا مگر ان امور کو آپ نے بطور احسن انجام دیئے ہیں اس طرح سے کہ ظالم حکام اسے سمجھنے کے باوجود امام کا کچھ نہیں کر پائے۔ان کارناموں میں سے آپ کی علمی کاوشیں اور سرگرمیاں ہیں۔
مگر مقالہ کی تنگی کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم قارئین کی خدمت میں صرف دو کارناموں کی طرف اشارہ کرنے کا شرف حاصل کریں گے۔
1- شاگردوں کی تربیت و پرورش:
اگرچہ امام حسن عسکری (ع) نامساعد حالات و شرائط نیز عباسی حکومت کی طرف سے سخت محدویت هونے کی بناپر علوم و معارف کو پورے سماج و معاشره میں کماحقّہ نشر نہ کرسکے لیکن اس کے باوجود تمام سختیوں، پرآشوب اور گھٹن کے ماحول کے هوتے هوئے لائق شاگردوں کی تربیت کی، جن میں سے هر ایک نے علوم و معارف اسلامی کی نشر و اشاعت اور دشمنانِ اسلام کے شکوک و شبہات کو برطرف کرنے میں اپنی توانائی کے مطابق بڑا اهم اور مؤثر کردار ادا کیا هے ۔ شیخ طوسی (رح) نے امام حسن عسکری (ع) کے شاگردوں کی تعداد سو افراد سے زیاده بتائی هے ۔[1] جن میں درخشاں چہرے کے مالک، نامدار شخصیتں اور حرّیت پسند افراد جیسے احمد بن اسحاق اشعرى قمى، ابوهاشم داؤد بن قاسم جعفرى، عبدالله بن جعفر حميرى، ابوعمرو عثمان بن سعيد عَمرى، على بن جعفر اور محمد بن حسن صفّار وغیرہ دیکھائی دیتے هیں۔[2]
شبھات کے جوابات
شاگردوں کی تربیت کے علاوه بعض موقعوں پر تو اتنی سخت مشکلوں کا سامنا هوتا تھا اور مسلمانوں کے لئے ناگفتہ بہ حالات پیش آتے تھے کہ جنھیں امام حسن عسکری (ع) کے سوا کوئی بھی حل نہیں کرسکتا تھا، ایسے موقعوں پر آپ (ع) اپنے علمِ امامت کی روشنی میں ایک غیر معمولی تدبیر کے ذریعہ لاینحلّ(غیر قابل حل) مشکلوں کو بھی حل کردیا کرتے تھے، ان مذکوره مطالب کے متعلق هم ایک نمونے کا ذکر یہاں پر کرتے هیں.
اسحاق کندی، عراق کا مشهور فلسفی تھا اس نے ایک کتاب لکھنی شروع کی جس میں وہ ثابت کرنا چاهتا تھا کہ قرآن میں تناقض اور ضد و نقیض چیزیں پائی جاتی هیں، اس کے لکھنے میں اس قدر سرگرم هوا کہ لوگوں سے الک تھلگ هوکر اپنے گھر کے اندر ایک گوشہ میں بیٹھ کر اس کام میں منہمک هوگیا، یهاں تک اس کا ایک شاگرد، امام حسن عسکری (ع) کی خدمت میں شرفیاب هوا، امام (ع) نے اس سے فرمایا: کیا تم لوگوں میں کوئی ایک عقلمند اور جواں مرد انسان نہیں هے جو اپنے استاد کو اس عبث کام سے روک سکے جو اس نے شروع کیا هے؟!
اس شاگرد نے عرض کیا: هم اس کے شاگرد هیں آخر کیوں کر اس کے اس کام یا دوسرے کاموں پر اعتراض کرسکتے هیں! امام (ع) نے فرمایا: کیا جو کچھ میں تم سے کہوں گا اس تک پہنچا سکتے هو ؟۔
شاگرد نے کہا: هاں، امام (ع) نے فرمایا: اس کے پاس جاؤ اور خوب دوستی بڑھاؤ اور وه جو کام کرنا چاهتا هے اس میں اس کی مدد کرو، پھر اس سے کہو استاد ایک سوال هے اگر اجازت دیں تو پوچھوں؟ جب وه تم کو سوال کرنے کی اجازت دے تو اس سے کہو: اگر قرآن کا بیان کرنے والا آپ کے پاس آئے (اور کہے کہ میری یہ مراد نہیں هے جو تم سمجھ رهے هو) کیا آپ یہ احتمال نہیں دیں گے کہ قرآنی الفاظ کے وه مفهوم و معانی نہیں هیں جو آپ نے سمجھا هے؟ وه کہے گا: هاں یہ احتمال پایا جاتا هے چونکہ اسحاق کندی اگر مطلب پر توجہ کرے گا تو بات کو سمجھ لے گا، جب وه تمهارے سوال کا مثبت جواب دے تو اس سے کہو: آپ کو یہ یقین کہاں سے حاصل هوگیا کہ قرآنی الفاظ کے وهی معنی مراد لئے گئے هیں جو آپ سمجھ رهے هیں؟!
هوسکتا هے قرآن کا مفهوم کچھ اور هو جس تک آپ کی رسائی نہ هوسکی هو اور آپ قرآنی الفاظ و عبارتوں کو دوسرے معانی و مفاهیم کے سانچے میں ڈاھال رهے هوں!۔
وه شخص اسحاق کندی کے پاس گیا اور جس طرح امام (ع) نے اس سے کہا تھا اسی طرح اس کے ساتھ پیش آیا، آخرکار ایک دن اس نے اپنا سوال اسحاق کندی کے سامنے پیش کردیا، اسحاق کندی نے اس سے سوال دهرانے کے لئے کہا، اس کے بعد وه فکر میں ڈوب گیا، اس نے اس بات کو ادبیات کی کسوٹی پر پَرکھا اور ممکن جانا ۔ اس نے اپنے شاگرد کو قسم دے کر پوچھا کہ یہ سوال تمهارے ذھن میں کہاں سے آیا، شاگرد نے کہا: بس ایسے هی میرے ذھن میں ایک سوال اٹھا اور میں نے آپ سے پوچھ لیا ۔
اسحاق کندی نے کہا: یہ سوال تمهارے ذھن کی اپج نہیں هے اور ممکن هی نہیں هے کہ تم اور تمهارے جیسے افراد کے ذھنوں میں اس طرح کے سوال آجائیں ۔
بتاؤ یہ سوال تم کہاں سے لے کر آئے هو ؟۔
شاگرد نے جواب دیا: ابومحمد امام حسن عسکری (ع) نے مجھے اس سوال کی تعلیم دی تھی، اسحاق کندی نے کہا: اب تم نے سچ بات بتائی، یہ سوال اس خاندان کے علاوه کسی اور کے ذهن میں نہیں آسکتا هے ۔ اس کے بعد اسحاق کندی نے اس سلسلے میں اب تک جو کچھ لکھا تھا انہیں آگ میں ڈال کر جلا دیا ۔[3]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
[1] رجال، شيخ طوسى، طبع نجف، المكتبة الحيدرية، 1381 ه . ق ، ص 427.
[2] سيره پيشوايان، مهدى پيشوايى، ص 627.
[3] مناقب، ج۴، ص۴2۴۔
Add new comment