جنگ جمل کیوں وجود میں آئی

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: حضرت علی (عليه السلام) نے اپنی حکومت کے آغاز میں ہی ان لوگوں کا صفایا شروع کر دیا جنہوں نے بیت المال کو اپنی جائیداد سمجھ رکھا تھا اور ان لوگوں سے بھی حساب و کتاب لیا جنہوں نے ذاتی طور پر بیت المال کو استعمال کیا۔

جنگ جمل کیوں وجود میں آئی

جب مولائے کائنات حضرت علی (علیہ السلام) نے یہ رویہ اختیار کیا تو وہ لوگ جو حضرت علی (علیہ السلام) سے خاص امیدیں لگائے تھے ان کے لیے یہ ماحول بہت سخت بن چکا تھا یعنی انہیں اپنے اہداف تک پہنچنے میں رکاوٹ محسوس ہو رہی تھی۔
ان لوگوں میں سے دو لوگ تو سر فہرست ہیں ایک طلحہ اور دوسرے زبیر، جبکہ انہیں حضرت علی (علیہ السلام) نے منصب بھی دیا لیکن ان کی توقع کچھ اور تھی۔
جب حالات اس طرح کے ہوئے تو معاویہ نے ان دونوں کے نام خط لکھا اور دونوں کو ایک جیسا ہی خط ملا جس کا مضمون کچھ اس طرح سے تھا کہ بصرہ اور کوفہ کو اپنے کنٹرول میں لیں اور لوگوں میں یہ مشھور کریں کہ ہم عثمان کے قتل کا انتقام لیں گے اور یہ کام جتنا جلدی ہو سکتا ہے کریں تاکہ ابوطالب کا بیٹا کہیں ان دو شہروں کو اپنے قبضے میں نہ لے لے، اور ان دونوں نے بھی اس دعوت کو قبول کر لیا اور مدینہ سے مکہ جانے کی تیاری شروع کر دی اور لوگوں کو جمع کرنا شروع کیا تاکہ جنگ کی تیاری کریں اور ادھر مولائے کائنات کے پاس گئے  کہ ہمیں کوفہ اور بصرہ کی حکومت پر منصوب کریں امام (علیہ السلام) نے فرمایا: جو خدا نے تمہیں عطا کیا ہے اس پر راضی رہو اور میں اس موضوع پر بھی کچھ سوچتا ہوں لیکن یاد رکھو میں انہیں منصوب کروں گا جو امانت دار ہوں۔
طلحه اور زبير نے جب یہ بات سنی تو بہت مایوس ہوگئے اور کہا کہ ہمیں اجازت دی جائے کہ ہم عمرہ کے لیے مکہ جاتے ہیں۔ امام (علیہ السلام) نے فرمایا: تم لوگوں کا ہدف کوئی اور ہے تو ان دونوں نے قسم کھائی کہ واللہ ہماری نیت کچھ اور نہیں ہے تو امام (علیہ السلام) نے فرمایا: تم لوگ بیعت کو توڑنا چاہتے ہو تو انہوں نے دوبارہ قسم کھائی کہ نہیں ایسا نہیں ہے، جب وہ لوگ وہاں سے نکلے تو امام علیہ السلام نے حاضرین سے کہا کہ مجھے یہ دونوں فتنہ میں ملوث نظر آرہے ہیں اور اسی میں ہی مارے جائیں گے.[1]
ابن قتيبه نے لکھا ہے:
دونوں علی(علیہ السلام) کے گھر سے جب نکلے تو قریش کے پاس گئے اور کہا کہ علی (علیہ السلام) نے ہمارے ساتھ صحیح نہیں کیا جبکہ ہم ہی وہ لوگ ہیں کہ جنہوں نے عثمان کے خلاف قیام کیا اور اس کے قتل کا ماحول فراہم کیا اور اب علی (علیہ السلام) جب خلافت پر پہنچے ہیں تو دوسروں کو ہم سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں، اور جب مکہ کے لیے روانہ ہوئے تو راستے میں ایک ایک سے کہا کہ ہم علی (علیہ السلام) کی بیعت میں نہیں ہیں۔[2]
حضرت عایشہ کا مدینہ جاتے ہوئے دوبارہ مکہ کی طرف لوٹنا
حضرت عایشہ نے مدینہ جاتے ہوئے ابن ام كلا سے ملاقات کی اور پوچھا کہ مدینے کے حالات سے آگاہ کرو تو اس نے کہا کہ لوگوں کے ایک بڑے حجوم نے 80 دن تک خلیفہ کے گھر کو گھیرے رکھا اور پھر اسے قتل کر دیا اس کے بعد سب نے مل کر علی (علیہ السلام) کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔ جب عایشہ نے خبر سنی تو سخت ناراض ہوئی اور کہا کہ میں عثمان کے قتل کا بدلہ لوں گی، جب ابن ام كلا نے یہ بات سنی تو کہا کہ آپ ہی نے تو کہا تھا کہ عثمان کافر ہے اور اسے قتل کرو اب آپ یہ کیا کہہ رہی ہیں تو اس کے جواب میں کہا کہ ہاں میں نے کہا تھا لیکن ابھی حالات اور بھی سخت ہو گئے ہیں اور یہ میں برداشت نہیں کروں گی اور حکم دیا کہ میری سواری واپس لے جائی جائے۔[3]
امام (عليه السلام) کے مخالفین کا مرکز
سب حضرت (علی علیہ السلام) کو اچھی طرح پہچانتے تھے کہ مکہ اور حرم خدا کا وہ کتنا احترام کرتے ہیں اسی لیے انہوں نے مکہ ہی میں پناہ لی ہوئی تھی اور وہیں پر جمع ہو کر جمل کا منصوبہ تیار کیا۔
جنگ جمل کا بجٹ
عثمان کے دور خلافت میں جتنا بیت المال جمع کیا گیا تھا اسے اس جنگ کے لئے پیش کیا گیا اور سب نے یہی کہا کہ کوئی ایسا طریقہ اپناؤ کہ حالات پہلے جیسے ہو جائیں اور پہلے کی طرح بیت المال تقسیم ہو۔
جنگ جمل میں جن لوگوں کا سب سے زیادہ مال خرچ ہوا:
1- عبدالله ابی ربيعه، عثمان کے زمانے میں یمن کا حاکم
2- يعلی ابن اميه، عثمان کی فوج کا سردار، یہ وہ شخص ہے کہ جس نے 600 اونٹ خرید کر جنگ کے لیے دیے[4]۔
جب مولائے کائنات کو بتایا گیا تو آپ نے فرمایا کہ انہوں نے یہ مال، بیت المال سے چرایا ہے اور دوسروں کا حق ضائع کیا ہے اور خدا کی قسم میں انہیں کبھی بھی معاف نہیں کروں گا۔[5]
طبری نے لکھا ہے:
اعلان کیا گیا کہ ام المؤمنين اور طلحه و زبير  بصرہ جارہے ہیں جو بھی اسلام کا بھلا چاہتا ہے ان کے ساتھ چلے اور اگر کسی کے پاس سواری اور زاد راہ نہیں ہے، اسکے لئے وہ بھی مہیا کیا جائے گا۔ [6]
جھوٹی گواہی
یہ کاروان جب ایک وادی کے پاس پہنچتا ہے جس کا نام حواب ہے تو عایشہ نے کہا کہ مجھے واپس جانا ہے کیونکہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا تھا کہ میری بیویوں میں سے ایک اس وادی سے گزرے گی اور اس کا یہ سفر نا حق ہوگا اور اس پر اس وادی کے کتے بھونکے گے تو طلحہ و زبیر نے کچھ لوگوں کے ساتھ مل کر جھوٹی قسم کھائی کہ یہ وہ وادی نہیں ہے اور اس طرح سے یہ بصرہ پہنچ گئے۔[7]
جنگ کس دن واقع ہوئی
10 جمادی الثانی اور 36 ہجری قمری کو واقع ہوئی اور مغرب سے پہلے ہی ختم بھی ہو گئی کیونکہ عایشہ اور اس کے ساتھیوں کو بہت بری طرح سے شکست ہوئی۔ جب حضرت علی (علیہ السلام) نے دیکھا کہ عایشہ تنہا ہے اور سب چھوڑ کر بھاگ گئے ہیں تو خود کو ان کی سواری کے پاس پہنچایا اور کہا کہ کوئی بھی انہیں نقصان نہ پہنچائے اور پھر عایشہ سے کہا اے زوجہ رسول کیا رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) نے تمہیں اس جنگ کے لیے کہا تھا ؟ تو عایشہ نے جواب میں کہا کہ نہیں، پھر کہا اے علی تم جنگ جیت گئے ہو اور مجھے معاف کر دو۔ تب مولائے کائنات نے ان کا کوئی جواب نہ دیا اور چند خواتین اور ان کے بھائی محمد ابن ابی بکر کے ساتھ انھیں واپس مکہ بھیجوا دیا۔ [8]

حوالے جات
--------------------------------------------------------------------------------
[1] . فروغ ولايت، جعفر سبحاني، 396.
[2] . الامامة و السياسة، ج 1، ص 49.
[3] . تاريخ طبري، ج 3، ص 172.
[4] . وہی، ص 166.
[5] . الجمل، صص 124-123.
[6] . تاريخ طبري، ج 3، ص 167.
[7] . شرح نهج البلاغه ابن ابي الحديد، ج 9، ص 312.
[8] . تاريخ طبري، ج 3، ص 539/ الجمل، ص 198-166.

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
2 + 10 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 57