خلاصہ :جنگ خندق (احزاب) اور مولائے کائنات کی شجاعت
سورہ احزاب کی آیت نمبر ۹ اور ۱۰ میں اس جنگ کی کامیابی کی طرف اشارہ ہوا ہے ۔
«یا ایها الذین آمنوا اذکروا نعمه الله علیکم اذ جاءتکم جنود فارسلنا علیهم ریحا و جنودا لم تروها و کان الله بما تعملون بصیرا ـ اذ جاؤکم من فوقکم و من اسفل منکم و اذ زاغت الابصار و بلغت القلوب الحناجر و تظنون بالله الظنونا؛ [۱] ایمان والو! اس وقت اللہ کی نعمت کو یاد کرو جب کفر کے لشکر تمہارے سامنے آگئے اور ہم نے ان کے خلاف تمہاری مدد کے لئے تیز ہوا اور ایسے لشکر بھیج دیئے جن کو تم نے دیکھا بھی نہیں تھا اور اللہ تمہارے اعمال کوخوب دیکھنے والا ہے ،اس وقت جب کفار تمہارے اوپر کی طرف سے اور نیچے کی سمت سے آگئے اور دہشت سے نگاہیں خیرہ کرنے لگیں اور کلیجے منہ کو آنے لگے اور تم خدا کے بارے میں طرح طرح کے خیالات میں مبتلا ہوگئے۔ » جنگ احزاب کو جس اعتبار سے بھی دیکھا جائے ہر اعتبار سے یہ جنگ اہم تھی کیونکہ پیامبر اسلام (صلیاللهعلیهوآلهوسلّم) نے فرمایا: «برز الایمان کله الی الشرک کله؛ کل ایمان کل کفر کے مقابلے میں ہے ۔.» [۲]
اس جنگ میں دشمن کی تعداد ۱۰ ہزار لکھی گئی ہے اور وہ بھی جو مسلح افراد تھے، لیکن اس کے مقابلے میں مسلمانوں کی تعداد ۳ ہزار تھی کہ جن کے پاس اسلحہ بھی بہت کم تھا یہ سب فرق ہونے کے باوجود پھر بھی مسلمان کامیاب ہو گئے اس کامیابی کی وجہ جو تاریخ میں ملتی ہے وہ غیبی امداد ہے اور غیبی امداد کے ساتھ ساتھ علی بن ابی طالب (علیہ السلام) جیسا بہادر بھی وہاں موجود تھا ۔
۵ ہجری کو جو سب سے بڑا واقعہ پیش آیا وہ جنگ خندق کا واقعہ ہے لوگوں نے آکر پیامبر اسلام کو خبر دی کہ مختلف قبیلوں نے مل کر ۱۰ ہزار کا لشکر بنایا ہے اور آپ سے جنگ کرنا چاہتے ہیں اور سب نے پیامبر کو مشورے دینا شروع کر دیے اتنے میں سلمان نے مشورہ دیا کہ مدینہ کی طرف جتنے راستے ہیں ان پر خندق کھودی جائے اور سلمان کے مشورے کو قبول کیا گیا اور پیامبر کے حکم کے مطابق خندق کھودی گئی اور دشمن جب وہاں پہنچے تو خندق کو دیکھا تو ایک ماہ تک خندق کے قریب ٹہرے رہے ایک مہینہ کے بعد ۵ آدمی دشمن کی طرف سے خندق کے اس طرف آگئے اور پکارنے لگے ان ۵ کے نام : ۱. عمر بن عبدود ۲. عکرمه بن ابی جهل ۳. هبیره بن وهب ۴. نوفل بن عبدالله ۵. ضرار بن خطاب.
ان ۵ میں سے عمرو بن عبدود عرب کا بہت بڑا بہادر مشہور تھا کہ جو اکیلا ہزار آدمی سے لڑتا تھا اس نے رجز پڑھنی شروع کر دی: «و لقد بححت من النداء بجمعکم هل من مبارز... ؛ میری آواز سن رہے ہو ، ہے کوئی جو میرے مقابلے میں آئے ؟ »
مسلمانوں پر وحشت طاری ہوئی اور کسی نے جواب نہ دیا ،فقط حضرت علی (علیهالسّلام)ہی تھے کہ جو بار بار پیامبر سے کہہ رہے تھے کہ اجازت دیں اور یہ اس کے مقابلے میں جائیں ، سرانجام یہ ہوا کہ پیامبر (صلیاللهعلیهوآلهوسلّم) نے علی (علیهالسّلام)کو اجازت دے دی اور اپنا عمامہ علی کے سر پر باندھا اپنی تلوار علی کو دی اور پھر دعا کے لیے ہاتھ بلند کئے : خدایا جنگ بدر «عبیده بن حارث» (چچا زاد بھائی ) مجھ سے لیا اور جنگ احد میںحمزه (چچا) کو مجھ سے لے لیا اب اپنے بھائی علی کو بھیج رہا ہوں اب مجھے اکیلا نہ چھوڑنا ۔
حضرت علی (علیهالسّلام)میدان کی طرف گئے اور جیسے ہی عمرو نے دیکھا تو کہا : اے علی کیا تم کوئی خواہش رکھتے ہو ؟
علی: « تم مشہور ہو کہ تین باتوں میں سے ایک بات مانتے ہو کیا یہ سچ ہے ؟.»
عمرو: ہاں یہ سچ ہے میں تین باتوں میں سے ایک بات کو قبول کر لیتا ہوں .
علی (علیهالسّلام) نے فرمایا: پہلی بات خدا پر ایمان لے آؤ اور اسکے رسول حضرت محمد (صلیاللهعلیهوآلهوسلّم) کی گواہی دومی۔
عمرو: نہیں یہ نہیں ہو سکتا ۔
علی: جس راستے سے آئے ہواسی راستے سے چلے جاؤ۔
عمرو:نہیں یہ بھی نہیں ہو سکتا کیونکہ قریش کی عورتیں مجھ پر ہنسیں گیں ۔
علی: پھر گھوڑے سے نیچے آؤ اور مجھ سے مقابلہ کرو۔
عمرو: زور سے ہنسا اور کہتا ہے مجھے یقین نہیں آتا عرب میں ایسا جوان بھی کہ جواکیلا مجھ سے مقابلے کے لیے کہے ، پھر کہا چلے جاؤ میں تمہیں نہیں مارنا چاہتا کیونکہ زمانہ جاہلیت میں تمہارا بابا میرا دوست تھا ۔
علی: لیکن میں اب تمہارا مقابلہ کروں گا ۔
عمرو :غصے سے گھوڑے سے نیچے اترا اور گھوڑے کو ہاتھ مار کر بھگا دیا اور اس کے دونوں کے درمیان سخت مقابلہ ہوا اور اس مقابلہ کی یہ حالت تھی ایک دھول کھڑی ہوئی اور کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا ۔
جابر بن عبدالله انصاری کہتے ہیں : کہ ایک مرتبہ علی (علیهالسّلام) کی تکبیر سنی اور ہم سمجھ گئے کہ عمرو مارا گیا ۔
جب عمرو کے ساتھ آئے ہوئے چار لوگوں نے یہ سنا تو پریشان ہو گئے اور نوفل خندق میں جا گرا مسلمانوں نے اسے پتھر مارنے شروع کر دیے تو نوفل کہتا ہے کہ اگر دم ہے تو آؤ مقابلہ کرو،تو اسے بھی علی (علیہ السلام) نے قتل کر دیا اتنے میں هبیره نے حملہ کر دیا تو وہ بھی علی کے ہاتھوں قتل ہو گیا اور باقی کے دو (عکرمه اور ضرار) وہاں سے بھاگ گئے ۔
دشمن کے ۱۰ ہزار لشکر نے جب یہ دیکھا تو واپس مکہ چلے گئے اور کسی میں دم نہ تھا کہ آگے آئے اور علی کا مقابلہ کرے ۔. [۳] [۴]
حضرت علی (علیهالسّلام) نے «عمرو» کے سر کو جدا کیا اور آکر پیامبر (صلیاللهعلیهوآلهوسلّم) کے سامنے زمین پر رکھ دیا لوگوں مبارک دینا شروع کر دی ابوبکر اور عمر آگے بڑھے اور آکر علی کا ماتھا چوما ۔. [۵]
پیامبر اکرم (صلیاللهعلیهوآلهوسلّم) نے ضربت علی (علیهالسّلام) کے بارے فرمایا:
«ضربه علی یوم الخندق افضل من عباده الثقلین؛ علی کی یہ ضربت جن و انس کی عبادت سے افضل ہے.» [۶] [۷]
اور فرمایا:عمرو بن عبدود کے مارے جانے سے مشرک ذلیل و خوار ہوئے ہیں اور مسلمانوں کو عزت ملی ہے ۔ [۸]
اس دوران مسلمانوں کی حالت بہت خراب تھی کیونکہ ایک مہینہ ہو گیا تھا کہ مدینہ محاصرہ میں تھا خود پیامبر اسلام (صلیاللهعلیهوآلهوسلّم) نے بھی تین دن سے کچھ نہیں کھایا تھا تیسرے دن حضرت زهرا (سلاماللهعلیها) نے خشک روٹی کا ایک ٹکڑا پیامبر کو دیا ۔ [۹]
حذیفه بن یمانی پیامبر کے کہنے پر دشمن کے لشکر میں موجود تھے اور ایک ایک خبر پیامبر تک پہنچا رہے تھے ایک دشمن کے لشکر کے سردار ابو سفیان نے سب کو جمع کیا اور کہا کہ اب تھک گئے ہیں بس اب سب مل کر ہر طرف سے حملہ کریں گے اور غصے کی حالت میں اپنے اونٹ پر سوار ہوا، حذیفہ بھاگتے ہوئے آئے اور سارا ماجرا بتایا پیامبر (صلیاللهعلیهوآلهوسلّم) نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور فرمایا:
«اللهم انت منزل الکتاب سریع الحساب، اهزم الاحزاب، اللهم اهزمهم و زلزلهم؛ خدایا! تو کتاب کو نازل کرنے والا ہے ، اور تو سریع الحساب ہے ، تم احزاب کو نابود کر ،خدایا انہیں نابود فرما.» [۱۰] [۱۱]
پیامبر اسلام کی دعا قبول ہوئی اور ایک خوفناک طوفان آیا کہ جس نے دشمن کے لشکر کو تار تار کر دیا ۔[۱۲]۔.اور اس طوفان کا ایسا خوف تھا کہ پھر یہ جمع نہ سکے ۔
...............................................
حوالے جات
[۱]احزاب/سوره۳۳، آیه۹ ۱۰.
[۲]مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۲۰، ص۲۱۵.
[۳]مفید، محمد بن محمد، ترجمه ارشاد مفید، ج۱، ص۸۹_ ۹۰.
[۴]دیاربکری، حسین بن محمد، تاریخ الخمیس، ج۱، ص۴۸۶.
[۵]مفید، محمد بن محمد، ترجمه ارشاد مفید، ج۱، ص۹۳
[۶]حاکم نیشابوری، مستدرک حاکم، ج۳، ص۳۲.
[۷]شوشتری، نورالله، احقاق الحق، ج۳، ص۲۲۸.
[۸]مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۲۰، ص۲۱۶.
[۹]طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان، ج۹، ص۲۵۲.
[۱۰]ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج۲، ص۱۲۰.
[۱۱]مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۲۰، ص۲۷۲.
[۱۲]احزاب/سوره۳۳، آیه۹.
Add new comment