قیام توابین

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: جو لوگ امام حسین(علیہ السلام) کے قافلہ سے ملحق نہ ہوسکے ان لوگوں نے کربلا کے واقعہ کے بعد توبہ کیا اور قیام کیا جن میں سے ایک قیام، قیام توابین کے نام سے مشھور ہے جو سلیمان ابن صرد خزاعی کی رھبری میں رونما ہوا اس قیام کا فائدہ یہ ہوا کہ لوگوں کے دلوں میں امویوں کا جو خوف تھا وہ ختم ہوگیا۔

قیام توابین

بسم اللہ الرحمن الرحیم
      جو لوگ کربلا میں امام حسین(علیہ السلام) پر اپنی جان قربان نہ کرسکے، کربلا کے واقعہ کے بعد ان لوگوں نے توبہ کیا اور سلیمان ابن صرد خزاعی کی قیادت میں امویوں کے خلاف آواز اٹھائی جو توابین کے نام سے مشھور ہیں، یہ قیام پہلی[۱] یا پانچویں[۲] ربیع الثانی، سن۶۵، ہجری میں "عین الوردہ" نامی مقام پر رونما ہوا۔
     عام طور پر یہ سوال لوگوں کے ذہنوں میں آتا ہے کہ یہ قیام بلافاصلہ کربلا کے واقعہ کے بعد رونما کیوں نہیں ہوا، اس کے جواب میں بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ اس وقت کی سیاسی فضا اس بات کی اجازت نہیں دے رہی تھی کے حکومت کے خلاف کوئی بھی اقدام کیا جائے لیکن جب یزید مرگیا اور عبید اللہ ابن زیاد شام کی طرف بھاگ گیا، اس وقت امام حسین(علیہ السلام) کے چاہنے والوں کو امام حسین(علیہ السلام) کے قاتلوں کے خلاف آواز اٹھانے کے لئے بہترین موقع فراہم ہوا۔ امام حسین(علیہ السلام)کے قاتلوں کو ان کےجرم کی سزا دینے کا موقع ملا[۳]۔

قیام کی وجہ:
     بغیر کسی شک کے جن کوفیوں نے امام حسین(علیہ السلام) کا ساتھ نہیں دیا تھا وہ لوگ اپنے اس عمل پر پشیمان تھے اور یہ پشیمنانی اس وقت تک ختم نہیں ہوسکتی تھی جب تک یا تو یہ لوگ امام حسین(علیہ السلام) کے قاتلوں کو قتل نہ کردیتے یا خود قتل ہوجائیں، اسی لئے ان لوگوں نے توبہ کرتے ہوئے یہ عھد کیا کہ یا امام حسین(علیہ السلام) کے قاتلوں کو قتل کردینگے یا خود قتل ہوجائینگے[۴]۔

قیام کی رہبری:
     قیام کی رھبری سلیمان ابن صرد خزاعی کو سونپی گئی اور اس قیام کی رھبری کے بارے میں دوسروں کے بھی نام تاریخ میں مرقوم ہیں[۵] سلیمان ابن صرد خزاعی  نے یہ کہتے ہوئے قیام کا آغاز کیا کہ ہم نے جو امام حسین(علیہ السلام) کا ساتھ نہیں دیا ہے یہ خدا کی ناراضگی کا سبب بنا ہے، اسی لئے جب تک ہم ان کے قاتلوں سے انتقام نہیں لینگے یا اپنی جان خدا کی راہ میں قربان نہیں کرینگے، خدا ہم سے راضی نہیں ہوگا[۶]۔
     سلیمان ابن صرد خزاعی اپنے سپاہیوں کے ساتھ پہلے کربلا گئے اور وہاں پر امام حسین(علیہ السلام) کی قبر کے پاس توبہ کی اور شام کی جانب روانہ ہوئے یہاں تک کہ"عین الوردہ"  نامی مقام پر پہونچے جہاں پر یہ قیام رونما ہوا[۷]۔
     یہ قیام شکست سے ہمکنار ہوا لیکن اس قیام میں شیعوں کو کچھ حد تک کامیابی بھی ملی اور شیعوں کو اس قیام کی مدد سے کچھ فائدے بھی حاصل ہوئے[۸]۔

قیام کے فائدے:
۱۔ امویوں کے دلوں میں ایک خوف اور حرازس کا سرایت ہونا۔
۲۔ دوسرے قیاموں کے لئے راستوں کا ہموار ہونا[۹]۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے:
[۱] مستدرک سفینه البحار؛ج۴، ص۶۸.
[۲] طقوش، محمد سهيل؛ دولت امويان، قم، پژوهشكده حوزه و دانشگاه، ۱۳۳۰ش، پہلی چاپ، ص ۸۰-۸۱.
 [۳] دولت امویان، ص ۷۹.
[۴] ابن اثير، عزالدين؛ الكامل، ترجمه ابوالقاسم حالت، عباس خليلي، تهران، مؤسسه مطبوعاتي علمي، ۱۳۷۱ش، ج۱۱، ص۳۱۲-۳۱۳.
[۵] الکامل، ص ۳۱۵.
[۶] شهيدي، سيد جعفر؛ تاريخ تحليلي اسلام، تهران، شركت انتشارات علمي و فرهنگي، ۱۳۸۳ش، ص۲۰۶.
[۷] قمي، شيخ عباس؛ نفس المهموم، ترجمه شيخ محمدباقر كمره‌اي، قم، مسجد مقدس جمكران،۱۳۷۰ش، ص۷۶۸-۷۷۱.
[۸] محمد جعفري، سيد حسين؛ تشيع در مسير تاريخ، ترجمه سيد محمدتقي آيت اللهي، تهران، دفتر نشر فرهنگ اسلامي،۱۳۷۲ش، ص۲۶۲.
[۹] حیاة الشعر فی الکوفه، ص 73۔

منبع:  http://rasekhoon.net/article/show/126959

 

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
1 + 0 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 74