حضرت مختار (ع) شیعہ علماء اور مورخین کی نظر میں

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: حضرت مختار ثقفی کی شخصیت کے حوالے سے علماء اور مورخین میں اختلاف ہے البتہ مکتب تشیع کے بلند علمی ستارے جیسے آیت اللہ العظمی خوئی وغیرہ نے حضرت مختار کو ایک سچا شیعہ اور آپکے قیام کو تشیع کا انقلاب قرارد دیا ہے۔

حضرت مختار (ع) شیعہ علماء اور مورخین کی نظر میں

شیعہ علماء کی نظر میں

شیعہ علماء میں سے بعض نے جناب مختار کی تعریف اور بعض نے ان کی مذمت کی ہے۔

حامی علماء

ابن نما حلی معتقد ہیں کہ شیعہ ائمہ(ع) نے مختار کی تعریف و تمجید کی ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ امام سجاد(ع) کا مختار کے حق میں جزائے خیر کی دعا کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ امام(ع) کی نگاہ میں مختار ایک نیک اور پرہیزگار شخص تھا۔ عبداللہ مامقانی بھی مختار کو ائمہ معصومین(ع) کی امامت کا قائل جانا اور ان کے قیام اور حکومت کو امام سجاد(ع) کی حمایت حاصل تھی۔ اگر چہ اس کی وثاقت ثابت نہیں ہے۔ مامقانی کے مطابق امام باقر(علیہ السلام) کا مختار کیلئے طلب رحمت کرنا وہ بھی ایک ہی حدیث میں تین بار، مختار کی نیک نیتی اور نیک سیرتی کو ثابت کرنے کیلئے کافی ہے۔(1)

علامہ حلی بھی مختار کے حوالے سے مثبت نظریہ رکھتے ہیں کیونکہ انہوں نے اپنی کتاب کے پہلے حصے میں مختار کا ذکر کیا ہے اور چونکہ علامہ حلی نے کسی غیر امامیہ کو حتی وہ کتنا مورد وثوق کی کیوں نہ ہو اپنی کتاب میں ذکر نہیں کیا ہے۔ اس بنا پر یہ احتمال دیا جا سکتا ہے کہ علامہ حلی کی نگاہ میں مختار شیعہ اور امامی تھا۔ سید ابن طاووس نے بھی مختار کی مدح میں موجود روایت کو اس کی مذمت میں موجود روایات پر ترجیح دی ہے۔

معاصر علماء اور فقہاء جنہوں نے مختار کی مدح سرائی کی ہے ان میں آیت اللہ خویی اور علامہ امینی کا نام لے سکتے ہیں۔ آیت اللہ خویی مختار کے حوالے سے مدح اور مذمت والی احادیث کو جمع کرنے کے بعد مدح والی روایات کو مذمت والی پر ترجیح دیتے ہیں۔ آپ قیام مختار کو امام سجاد(ع) کی اجازت حاصل ہونے کے قائل ہیں۔ علامہ امینی نیز مختار کو ایک دیندار اور ہدایت یافتہ اور مخلص اشخاص میں شمار کرتے ہیں۔ آپ معتقد ہیں کہ امام سجاد(علیہ السلام)، امام باقر(علیہ السلام) اور امام صادق(علیہ السلام) نے مختار کیلئے رحمت کی دعا کی ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ ائمہ میں سے امام باقر(علیہ السلام) نے نہایت خوبصورت انداز میں مختار کی تعریف و تمجید کی ہے۔

توقف کرنے والے علماء

میرزا محمد استرآبادی معتقد ہیں کہ مختار کی مذمت نہیں کرنی چاہئے لیکن ساتھ ہی ساتھ ان سے منقول احادیث کو مورد اعتماد قرار نہیں دیتے ہیں اور آخر کار ان کے بارے میں کچھ نہیں کہتے، علامہ مجلسی کو بھی ان افراد میں شامل کر سکتے ہیں جنہوں نے مختار کے بارے میں توقف اختیار کیا ہے، آپ نے متخار کے ایمان کو غیر کامل قرار دیتے ہوئے ان کے قیام کو امام سجاد(ع) کی اجازت کے بغیر قرار دیتے ہیں۔ لیکن ان کی نظر میں چونکہ مختار نے بہت سارے اچھے اقدامات انجام دئیے ہیں اس لئے وہ عاقبت بخیر ہوئے ہیں، آخر میں علامہ مجلسی مختار کے بارے میں توقف کرنے پر تصریح کرتے ہیں۔(2)

شیعہ معاصر مورخین کی نظر میں

مختار کی شخصیت کے بارے میں شیعہ مورخین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔

حامی حضرات

ان مورخین میں عبدالرزاق مقرم جیسے حضرات، مختار پر لگائے جانے والے الزامات اور تہمتوں سے برئ الذمہ قرار دیتے ہیں اور ان سب کو جھوٹ پر مبنی اور دشمنوں کی سازش قرار دیتے ہیں۔ باقر شریف قرشی بھی قیام مختار کو جہاد مقدّس قرار دیتے ہوئے اس بات کے معتقد ہیں کہ مختار جس قدرت اور سطلنت کے پیچھے تھا وہ اس کی جاہ طلبی اور ریاست طلبی کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ اہل بیت پیغمبر(ع) کے قاتلوں سے ان کے خون کا بدلہ لینے کیلئے وہ ایسی قدرت اور سلطنت کے درپے تھا، اس مناسبت سے نجم الدین طبسی جو معاصر مورخین میں سے ہیں مختار کے دفاع کی خاطر مختار پر لگائے گئے الزامات کو مختار ستیزی کی خاطر بنی امیہ کی سازش قرار دیتے ہیں۔ ان کے بقول امام باقر(ع) نے جس روایت میں مختار کیلئے طلب رحمت کی ہے وہ حدیث بہت معتبر حدیث ہے اور یہ روایت ایک طرح سے مختار کے قیام اور اس کا امام حسین(ع) کے قاتلوں سے انتقام لینے کی صحت پر واضح دلیل ہے۔ 

بعض مورخین کے نظریات، مختار کے بارے میں مثبت اور منفی دونوں پہلو پر مشتمل ہیں مثلا مہدی پیشوایی مختار کا ائمہ کی امامت پر اعتقاد کو شیعہ سیاسی اعتقاد سے بالاتر قرار دیتے ہوئے اس کے قیام کو ایک مکمل شیعہ قیام قرار دیتے ہیں اور اس بات کے معتقد ہیں کہ مختار نے یہ قیام اپنے اعتقادات کی بنیاد پر قیام کیا ہے لیکن اس کے باوجود آپ معتقد ہیں کہ مختار کی شخصیت جاہ طلبی اور ریاست طلبی سے خالی نہیں تھی اور بعض موارد میں افراط و تفریط کا شکار ہوئے ہیں۔ یعقوب جعفری نیز اسی نظریے کو درست قرار دیتے ہیں وہ مختار کو واقعی شیعہ سمجھتے ہیں کہ اس کا اصل ہدف اور مقصد درست تھا لیکن انتقام لینے میں بعض مواقع پر زیادہ روی سے کام لیا ہے جسے وہ مختار کے سخت رویہ کی وجہ سے قرار دیتے ہیں۔ محمد ہادی یوسفی غروی بھی مختار کو ایک قدرت طلب اور سیاسی مسلمان قرار دیتے ہیں وہ اس کے اقدامات کو مورد تائید ائمہ قرار نہیں دیتے لیکن اس کے باوجود اسے کی ائمہ کی امامت پر ایمان اور عقیدہ رکھنے کا معتقد ہے اور ائمہ کی طرف سے اس کیلئے دعائے خیر اور رحمت کی درخواست کو اس کی نجات کا ذریعہ قرار دیتے ہیں۔(3)

مخالفین

مخالفین میں سے بعض اس بات کے معتقد ہیں کہ مختار کی زندگی کا مطالعہ اور تاریخی شواہد کے مطالعے سے یہ یقین حاصل ہوتا ہے کہ مختار ایک قدرت طلب اور ریاست طلب آدمی تھے۔ یہ حضرات، قیام مختار کو اس کی طرف سے اپنے مقاصد اور سیاسی اہداف تک پہنچنے کا ذریعہ قرار دیتے ہیں۔ ان کی نظر میں مختار نے صرف اہداف میں مشترک ہونے کی وجہ سے حضرت مسلم کی حمایت کی تھی نہ عقیدے کی بنیاد پر۔ ان کے مطابق مختار ایک عقیدتی شیعہ ہونے کے معیار کا حامل نہیں ہے اس بنا پر اس کا قیام سو فیصد ایک شیعہ قیام اور تحریک نہیں تھی۔ بعض مورخین بھی مختار کو ایک تیز بین ہوشیار اور سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والی شخصیت قرار دیتے ہوئے اسے امام سجاد(ع) کے بجائے محمد ابن حنفیہ کی امامت کا قائل سمجھتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں مختار اہل بیت(ع) کو اپنی سیاسی اہداف تک پہنچنے کیلئے استعمال کرنا چاہتا تھا۔ (4)

نتیجہ: شیعہ علماء اور مورخین میں سے اکثریت، حضرت مختار کو ایک متدین، متعھد اور عاشق اہل بیت (علیہم السلام) شخصیت اور آپ کے قیام کو شرعی اور مرضی اہل بیت (علیہم السلام) کے مطابق سمجتھے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1) تنقیح المقال، ج3 ص 206۔

(2) پيامدہاى عاشورا، ص135.

(3) دیدگاہ مورخین معاصر شیعی دربارہ مختار کمال الدین نصرتی ص 44

(4) أسدالغابۃ،ج‌4،ص:347

 

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
1 + 0 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 76