حضرت ابوطالب علیہ السلام کی جانثاری کی ایک جھلک

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: قریش کے سربراہوں کا رسول اللہ [ص] کے قتل کا ارادہ، حضرت ابوطالب [ع] نے آنحضرت کی جان بچانے کے لئے ہاشم اور عبدالملک کے تمام جوانوں کو جمع اور تیار کیا تا کہ کے سربراہوں سے انتقال لیا جائے، لیکن معلوم ہوا کہ رسول اللہ [ص] زندہ اور محفوظ ہیں تو حضرت ابوطالب [ع] نے قریش کے سربراہوں کو اپنی تیاری سے آگاہ کیا تا کہ وہ آئندہ ایسا ارادہ کرنے کی جرات نہ کریں

حضرت ابوطالب علیہ السلام کی جانثاری کی ایک جھلک

قریش کے سربراہوں نے حضرت ابوطالب علیہ السلام کے گھر میں پیغمبر اکرم صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موجودگی میں جلسہ منعقد کیا۔ ان کے درمیان کچھ بات چیت ہوئی، قریش کے سربراہ اُس گفتگو سے کوئی نتیجہ لیے بغیر اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے حالانکہ عقبہ بن ابی معیط بلند آواز سے کہنے لگا: اسے اپنے حال پر چھوڑ دیں، نصیحت کا کوئی فائدہ نہیں، اسے قتل کردینا چاہیے اور اس کی حیات کا خاتمہ ہونا چاہیے۔

حضرت ابوطالب علیہ السلام یہ جملہ سن کر بہت پریشان ہوئے لیکن آپؑ کیا کرسکتے تھے، وہ لوگ مہمان کے طور پر آپؑ کے گھر آئے تھے۔ اتفاق سے رسول اکرم صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم اُسی دن گھر سے باہر تشریف لے گئے اور پھر گھر واپس نہ آئے۔ مغرب کے قریب آنحضرتؐ کے چچا حضرات آپؐ کے گھر گئے لیکن آپؐ کو وہاں نہ پایا۔ اچانک حضرت ابوطالب علیہ السلام "عقبہ" کی اُس بات کی طرف متوجہ ہوئے اور اپنے آپ سے کہا: انہوں نے ضرور میرے بھتیجے کو قتل کردیا ہوگا۔ سوچنے لگے کہ اب انہوں نے قتل کردیا ہوگا، مجھے مکہ کے فرعونوں سے محمد کا انتقام لینا چاہیے۔ حضرت ابوطالب علیہ السلام نے ہاشم اور عبدالملک کے تمام فرزندوں کو اپنے گھر دعوت دی اور حکم دیا کہ ہر آدمی اسلحہ اپنے کپڑوں کے نیچے چھپائے اور اکٹھا ہو کر مسجدالحرام میں داخل ہوں، ہر آدمی، قریش کے ایک سربراہ کے پاس ییٹھ جائے اور جب ابوطالب کی آواز بلند ہو اور کہیں: "یامعشر قریش ابغی محمدا"  اے قریش کے سربراہو! میں محمد کا تم سے مطالبہ کرتا ہوں، فوراً اپنی جگہ سے کھڑے ہوجاؤ اور ہر آدمی اپنے پاس بیٹھے ہوئے شخص کو قتل کردے تاکہ اس طریقہ سے وہ سب قتل ہوجائیں۔

حضرت ابوطالب علیہ السلام جانے لگے تھے کہ اچانک "زید بن حارثہ" گھر میں داخل ہوئے اور ان کی تیاری کو دیکھا۔ حیرت زدہ ہوگئے اور کہا: پیغمبرؐ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا اور آنحضرتؐ ایک مسلمان کے گھر میں تبلیغ میں مصروف ہیں۔ یہ کہہ کر فوراً پیغمبرؐ کی طرف دوڑے اور آپؐ کو حضرت ابوطالبؑ کے ارادہ سے مطلع کیا۔ پیغمبرؐ بھی تیزی سے گھر پہنچے۔ حضرت ابوطالب علیہ السلام کی نظر بھتیجے کے دلکش چہرے پر پڑی تو خوشی کے آنسو آپؑ کی آنکھوں سے ٹپکنے لگے۔ آپؑ نے رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی طرف رخ کرتے ہوئے کہا: این کنت یا ابن اخی ا کنت فی خیر؟ اے میرے بھتیجے کہاں تھے؟ کیا اتنی دیر خوش و خرم رہے اور نقصان سے بچے رہے؟ پیغمبرؐ نے چچا کا جواب دیا اور فرمایا: کسی سے کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ حضرت ابوطالب علیہ السلام اُس رات کو رات بھر غور کرتے رہے اور کہتے تھے: آج میرا بھتیجا دشمن کے ہدف کا نشانہ نہ بنا، لیکن قریش جب تک اسے قتل نہ کریں وہ آرام نہیں کریں گے، مناسب سمجھا کہ کل طلوع آفتاب کے بعد، قریش کے جلسوں کے انعقاد کے موقع پر ہاشم اور عبدالمطلب کے جوانوں کے ساتھ مسجد میں داخل ہوں اور انہیں اپنے کل والے ارادے سے مطلع کریں، شاید ان کے دلوں میں کوئی رعب پڑجائے اور آئندہ محمدؐ کو قتل کرنے کا منصوبہ نہ بنائیں۔ سورج طلوع ہوا، قریش کا گھروں سے اپنی محافل کی طرف روانہ ہونے کا وقت آگیا، ابھی گفتگو میں مصروف نہ ہوئے تھے کہ حضرت ابوطالب علیہ السلام کا چہرہ دور سے ظاہر ہوا اور انہوں نے دیکھا کہ بہادر جوان آپؑ کے پیچھے پیچھے آرہے ہیں، سب سنبھل گئے اور منتظر تھے کہ حضرت ابوطالب علیہ السلام کیا کہنا چاہتے ہیں اور کس مقصد کے لئے اس گروہ کے ساتھ مسجدالحرام میں داخل ہوئے ہیں۔ حضرت ابوطالب علیہ السلام اس مجمع کے سامنے کھڑے ہوئے اور فرمایا: کل محمدؐ کچھ گھڑی کے لئے ہماری نظروں سے غائب ہوگئے، مجھے محسوس ہوا کہ تم لوگوں نے عقبہ کی بات پر عمل کرتے ہوئے آنحضرتؐ کو قتل کردیا ہے۔ اسی لئے میں نے ارادہ کیا تھا انہی جوانوں کے ساتھ مسجدالحرام میں داخل ہوجاؤں اور ہر ایک کو میں نے حکم دیا تھا کہ تمہارے ایک ایک فرد کے پاس بیٹھ جائے اور جب میری آواز آئے، سب اچانک اپنی جگہ سے اٹھیں اور اپنے خفیہ حربہ سے تمہیں قتل کر دیں۔ لیکن خوش نصیبی سے میں نے محمدؐ کو زندہ پایا اور آنحضرتؐ کو تمہارے نقصان سے محفوظ پایا۔ پھر اپنے بہادر جوانوں کو حکم دیا کہ اپنے خفیہ اسلحے کو نکالیں اور اپنی بات کا اِس جملہ سے اختتام کیا: خدا کی قسم اگر تم لوگ آنحضرتؐ کو قتل کردیتے تو مَیں تم میں سے کسی شخص کو زندہ نہ چھوڑتا اور آخر دم تک تم سے جنگ کرتا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(ماخوذ از: کتاب شمہ ای از فداکاری ابوطالب علیہ السلام، تصنیف: آیت اللہ جعفر سبحانی)

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
2 + 2 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 40