خلاصہ: قرآن مجید کی آیات کے بارے اپنی طرف سے کسی قسم کی رأی دینے کو تفسیر بالرأی کہتے ہیں، اور روایتوں میں ایسے شخص کی بہت زیادہ مذمت کی گئی ہے جو اپنی جانب سے قرآن کی آیات کی تفسیر کرتا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
قرآن، اسلام کی بنیادی کتاب ہے۔ اسلامی عقیدے کے مطابق قرآن عربی زبان میں تقریباً ۲۳برس کے عرصے میں رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) پر نازل ہوا۔ قرآن کے نازل ہونے کے عمل کو وحی کہا جاتا ہے۔ اور یہ کتاب حضرت جبرائیل(علیہ السلام) کے ذریعہ حضرت(محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) پر نازل ہوئی۔ مسلمانوں کا بنیادی عقیدہ ہے کہ قرآن میں آج تک کوئی کمی یا زیادتی نہیں ہوئی، اور اسے دنیا کی واحد محفوظ کتاب ہونے کی حیثیت حاصل ہے جس کے بارے می خود خداوند متعال اس طرح ارشاد فرمارہا ہے«إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْر وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ[سورۂ حجر، آیت:۹] ہم نے ہی اس قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں»۔
قرآن کی خود سے تفسیر کرنے کے بارے میں روایتوں میں بہت زیادہ مذمت کی گئی ہے، اس کے بارے میں فیض کاشانی فرماتے ہیں کہ قرآن کی دو طریقہ سے خود سے تفسیر کی جا سکتی ہے:
۱۔ مفسِّر(تفسیر کرنے والا) کا کسی چیز کے بارے اپنا نظریہ یا عقیدہ ہو، اور وہ اپنے ذاتی نظریہ کے اثبات اور تاکید کے لئے قرآن کی آیت کو پیش کرتا ہے تاکہ اس کا ذاتی اور شخصی نظریہ قرآن کی آیت کے ذریعہ معتبر ہوجائے، حالانکہ مذھب کا اس آیت کے بارے میں وہ عقیدہ ہوتا۔
۲۔ بعض وقت مفسِّر(تفسیر کرنے والا) قرآن کے ادبی قوائد کی رعایت کئے بغیر اس کی مبھم اور عام معنی کی تفسیر صرف ظاہری الفاظ کو دیکھ کر کرتا ہے، بغیر کسی روایت کی مدد لئے ہوئے صرف اور صرف قرآن کے ظاہری الفاظ کو دیکھ کر اس کی تفسیر کرتا ہے[۱]۔
علامہ طباطبائی فرماتے ہیں: جس طرح لوگ ایک دوسرے کے کلام کی وضاحت کرنے ہیں اسی طرح مفسِّر(تفسیر کرنے والا) اللہ کے کلام کے بارے میں وضاحت کرنے لگتا ہے، حالانکہ اللہ کے کلام اور لوگوں کی گفتگو میں بہت زیادہ فرق پایاجاتاہے، قرآن کے بارے میں روایتوں میں وارد ہوا ہے کہ قرآن کے کئی باطن ہیں[۲] تو ایک معمولی انسان بغیر رویایتوں کی مدد لئے ہوئے کس طرح اللہ کے کلام کی تفسیر کرسکتا ہے۔ اسی لئے روایتوں میں خود سے تفسیر کرنے کی بہت زیادہ مذمت کی گئی ہے[۳].
معصومین(علیہم السلام) نے کبھی بھی میری فکر یا میر نظریہ نہیں فرمایا اور کبھی بھی اس بات کی کوشش نہیں کی کہ اپنی فکر کو لوگوں کے لئے بیان کریں(حالانکہ ان کی فکر کبھی بھی خدا کی فکر سے الگ نہیں تھیں)۔ معصومین(علیہم السلام) کے لئے یہ اہم تھا کہ خدا نے کیا فرمایا ہے اسی لئے معصومین(علیہم السلام) نے اسی کو لوگوں کے سامنے بیان فرماتے تھے۔
کسی نے امام صادق(علیہ السلام) سے ایک مسئلہ پوچھا۔ امام(علیہ السلام) نے اس کو اس کا جواب ارشاد فرمایا، اس کے بعد اس نے امام(علیہ السلام) سے دوبارہ پوچھا کہ اس کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟
امام(علیہ السلام) نے فرمایا: تم کیا سونچتے ہو! میں نے جو تم کو جواب دیا ہے وہ رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایاہے؛ ہم ان لوگوں میں سے نہیں ہیں کہ خدا کے علاوہ اپنی کوئی رائے یا نظریہ کو رکھے[۴]۔ یعنی امام(علیہ السلام) کے نزدیک اپنی رائے کی کچھ بھی اہمیت نہیں ہے، بلکہ ان کے نزدیک صرف اور صرف خدا کیا کہرہا ہے اس کی اہمیت ہے۔
نتیجہ:
بڑے تعجب کی بات ہے کہ امام(علیہ السلام) جس کا علم خدا کی علم سے مأخوز اور کسب شدہ ہے، وہ اپنی رائے کو اہمیت نہیں دیرہا ہے! مگر ہم جو اپنے آپ کو ان کی اتباع کرنے والا ان کے حکم پر جان دینے والا کہتے ہیں ہر جگہ پر، ہر کسی پر اپنی رائے اور عقیدہ کو مسلط کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں، یہ کہتے ہیں کہ یہ میرا عقیدہ ہے، میں اس چیز کے بارے میں یہ کہتا ہوں۔ ہم کو اپنے بارے میں سونچنے کے ضرورت ہے کہ کیا ہم حقیقت میں معصومین(علیہم السلام) کی اطاعت کر رہے ہیں یا صرف ہماری زبانوں پر ان کی پیروی کے چرچے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے:
[۱] تفسير الصافى، ملا محسن فيض كاشانى، ج۱، ص۳۸، انتشارات الصدر، تهران، ۱۴۱۵ق۔
[۲] گذشتہ حوالہ، ص۵۹۔
[۳] المیزان فی تفسیر القرآن، محمدحسین طباطبایی۔ ج۳، ص۷۶. دفتر انتشارات اسلامى جامعهى مدرسين حوزه علميه قم، ۱۴۱۷۱۔
[۴] كافی، محمد بن يعقوب كلينى، ج۱، ص۵۸، تهران، دار الكتب الإسلامية، ۱۴۰۷ق۔
Add new comment