امام اور امامت
اٴَحْییٰ بِهِمْ دینَهُ، َواَٴتَمَّ بِهِمْ نُورَهُ،۔۔۔۔۔۔۔اوصیائے (الٰہی) وہ افراد ہیں جن کے ذریعہ خداوندعالم اپنے دین کو زندہ رکھتا ہے، ان کے ذریعہ اپنے نور کو مکمل طور پر نشر کرتا ہے، خداوندعالم نے ان کے اور ان کے (حقیقی) بھائیوں، چچا زاد (بھائیوں) اور دیگر رشتہ داروں کے درمیان واضح فرق رکھا ہے کہ جس کے ذریعہ حجت اور غیر حجت نیز امام اور ماموم کے درمیان پہچان ہوجائے۔ اور وہ واضح فرق یہ ہے کہ اوصیائے الٰہی کو خداوندعالم گناھوں سے محفوظ رکھتا ہے اور ان کو ہر عیب سے منزہ، برائیوں سے پاک اور خطاؤں سے دور رکھتا ہے، خداوندعالم نے ان کو علم و حکمت کا خزانہ دار اور اپنے اسرار کا رازدار قرار دیا ہے اور دلیلوں کے ذریعہ ان کی تائید کرتا ہے۔ اگر یہ نہ ہوتے تو پہر تمام لوگ ایک جیسے ہوجاتے، اور کوئی بھی امامت کا دعویٰ کر بیٹھتا، اس صورت میں حق و باطل اور عالم و جاہل میں تمیز نہ ہوپاتی۔[الغیبة، طوسی، ص 288، ح 246۔]
خلاصہ: ائمہ طاہرین (علیہم السلام) کے فضائل و کمالات کو شمار نہیں کیا جاسکتا، مختصر معرفت کے لئے چند صفات کا تذکرہ کیا جارہا ہے۔
ابو محمد کنیت حسن نام اور سامرہ کے محلہ عسکر میں قیام کی وجہ سے عسکری (علیہ السّلام) مشہور لقب ہے والد بزرگوار حضرت امام علی نقی علیہ السّلام اور والدہ سلیل خاتون تھیں جو عبادت , ریاضت عفت اور سخاوت کے صفات میں اپنے طبقے کے لئے مثال کی حیثیت رکھتی تھیں .
خلاصہ: حضرت امام علی رضا (علیہ السلام) نے ایک طویل حدیث میں امام اور امامت کے مقام کا تعارف کروایا ہے۔ اس حدیث کی مختصر وضاحت پیش کرتے ہوئے چوتھا مضمون پیش کیا جارہا ہے۔