اٴَحْییٰ بِهِمْ دینَهُ، َواَٴتَمَّ بِهِمْ نُورَهُ،۔۔۔۔۔۔۔اوصیائے (الٰہی) وہ افراد ہیں جن کے ذریعہ خداوندعالم اپنے دین کو زندہ رکھتا ہے، ان کے ذریعہ اپنے نور کو مکمل طور پر نشر کرتا ہے، خداوندعالم نے ان کے اور ان کے (حقیقی) بھائیوں، چچا زاد (بھائیوں) اور دیگر رشتہ داروں کے درمیان واضح فرق رکھا ہے کہ جس کے ذریعہ حجت اور غیر حجت نیز امام اور ماموم کے درمیان پہچان ہوجائے۔ اور وہ واضح فرق یہ ہے کہ اوصیائے الٰہی کو خداوندعالم گناھوں سے محفوظ رکھتا ہے اور ان کو ہر عیب سے منزہ، برائیوں سے پاک اور خطاؤں سے دور رکھتا ہے، خداوندعالم نے ان کو علم و حکمت کا خزانہ دار اور اپنے اسرار کا رازدار قرار دیا ہے اور دلیلوں کے ذریعہ ان کی تائید کرتا ہے۔ اگر یہ نہ ہوتے تو پہر تمام لوگ ایک جیسے ہوجاتے، اور کوئی بھی امامت کا دعویٰ کر بیٹھتا، اس صورت میں حق و باطل اور عالم و جاہل میں تمیز نہ ہوپاتی۔[الغیبة، طوسی، ص 288، ح 246۔]
شرح:مندرجہ بالا کلمات امام مھدی علیہ السلام نے احمد بن اسحاق کے خط کے جواب میں تحریر کئے ہیں، امام علیہ السلام چند نکات کی طرف اشارہ کرنے کے بعد امام اور امامت کی حقیقت اور شان کو بیان کرتے ہوئے امام کی چند خصوصیات بیان فرماتے ہیں، تاکہ ان کے ذریعہ حقیقی امام اور امامت کا جھوٹا دعویٰ کرنے والوں کے درمیان تمیز ہوسکے:
۱۔ امام کے ذریعہ خدا کا دین زندہ ہوتا ہے؛ کیونکہ امام ھی اختلافات، فتنوں اور شبھات کے موقع پر حق کو باطل سے الگ کرتا ہے اور لوگوں کو حقیقی دین کی طرف ہدایت کرتا ہے۔
۲۔ نور خدا جو رسول خدا (ص) سے شروع ہوتا ہے، امام کے ذریعہ تمام اور کامل ہوتا ہے۔
۳۔ خداوندعالم نے پیغمبر اکرم (ص) کی ذرّیت میں امام کی پہچان کے لئے کچھ خاص صفات معین کئے ہیں، تاکہ لوگ امامت کے سلسلہ میں غلط فہمی کا شکار نہ ہوں، مخصوصاً اس موقع پر جب ذرّیت رسول کے بعض افراد امامت کا جھوٹا دعویٰ کریں۔ ان میں سے بعض خصوصیات کچھ اس طرح ہیں: گناھوں کے مقابلہ میں عصمت، عیوب سے پاکیزگی، برائیوں سے مبرّااور خطا و لغزش سے پاکیزگی وغیرہ، اگر یہ خصوصیات نہ ہوتے تو پہر ہر کس و ناکس امامت کا دعویٰ کردیتا، اور پہر حق و باطل میں کوئی فرق نہ ہوتا، جس کے نتیجہ میں دین الٰہی پوری دنیا پر حاکم نہ ہوتا۔
ماخذ:الغیبة، طوسی، ص 288، ح 246۔
Add new comment